اسلام آباد( ربوہ ٹائمز آن لائن )پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے این آراوکیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرائےجانے والےاپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ پاکستان سے باہر میری کوئی جائیداد نہیں اور ناہی کوئی بینک اکاؤنٹ ہے، ایک صفحے پر مشتمل بیان حلفی آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جمع کرایا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کل(بدھ کے روز ) کیس کی سماعت کرے گا۔

تفصیلات کےمطابق سابق صدرآصف زرداری نے این آر او کیس میں اپنا بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے ،بیان میں کہا گیا ہے کہ’’ حلفیہ کہتا ہوں کہ پاکستان سے باہر میری کوئی منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد نہیں، میرا کوئی بینک اکاؤنٹ پاکستان سے باہر نہیں اور میں نے اپنے بیان میں جو بات کی ہے اس پر قائم ہوں‘‘۔سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں یہ بیان حلفی جمع کرایا ،واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں آصف علی زرداری کو بیرون ملک اثاثوں سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کاحکم دیا تھا، این آر او کے مقدمے کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کل (بدھ کے روز ) کرے گا۔یاد رہے کہ رواں ماہ ہی سپریم کورٹ میں این آر او سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس قومی مفاہمتی آرڈیننس کی وجہ سے ملک کا اربوں کا نقصان ہوا، لہذا قانون بنانے والوں سے نقصان کی رقم وصول کی جائے۔چیف جسٹس نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ کا مقدمہ دائر کرنے کا بنیادی حق کیا ہے؟ عدالت این آر او قانون کالعدم قرار دے چکی ہے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کا موقف سننے کے بعد 24 اپریل کو سابق صدور آصف علی زرداری اور پرویز مشرف کو نوٹس جاری کئے تھے۔یہ بھی یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او)جاری کیا تھا۔ 7 دفعات پر مشتمل اس آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا بتایا گیا تھا جبکہ اس قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات بھی ختم کیے گئے۔ این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں کئی معروف سیاستدان بھی شامل ہیں جبکہ اسی قانون کے تحت سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی بھی ممکن ہو سکی تھی۔قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کو 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بنچ نے کالعدم قرار دیدیا تھا اور اس قانون کے تحت ختم کیے گئے مقدمات بحال کرنے کے احکامات جاری ہوئے تھے۔