ایک گمنام جشن آزادی پاکستان

تحریر:ذیشان محمود۔ کراچی
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ایسا شہر بھی ہے جہاں کے باسی گو کہ پاکستان کہ شہری ہیں لیکن ان کے بنیادی مذہبی حقوق آئین ِ پاکستان میں ترامیم کرکے تحت سلب کئے گئے ہیں۔14 اگست کا جشن ہر سال کی طرح اس سال بھی یہاں بھرپور یہاں جوش و خروش سے منایا گیا۔ لیکن افسوس کسی بھی میڈیا کے کسی بھی ذریعہ سے یہاں بسنے والوں کو کوریج نہیں دی گئی۔ پاکستان کا ہر میڈیا گروپ اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ حق اورسچ بات بے خوف ہو کر دکھاتا ہے اور ان کے کیمروں کی آنکھ سے پاکستان کا کوئی حصہ بھی چھپا نہیں ہے۔ لیکن وائے افسوس ایسے جھوٹے دعوؤں کے جو وقت کے فرعونوں کے خوف تلے سچائی کو جان بوجھ کر چھپاتے ہیں۔ یہ ان کے دلوں کا پوشیدہ نفاق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس نفاق پر پکڑ کرنے سے متعلق واضح طور پر بتا دیا ہے۔ فرماتاہے:

یعنی ’’پس عقوبت کے طور پر اللہ نے ان کے دلوں مىں اس دن تک کے لئے نِفاق رکھ دىا جب وہ اس سے ملىں گے بوجہ اس کے کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ خلافى کى نىز اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے ۔ کىا انہىں علم نہىں ہوا کہ اللہ ان کے رازوں کو اور ان کے پوشىدہ مشوروں کو جانتا ہے اور اللہ تمام غىبوں کا بہت زىادہ علم رکھتا ہے۔‘‘
ان آیات میں جہاں نفاق کا ذکر ہے وہیں پوشیدہ رازوں اور مشوروں کے متعلق بھی بتا دیا ہے کہ اللہ ان سب باتوں کو بہت خوب جانتا ہے اور یہی بات
ایسے خفیہ مشورے کرنے والوں اور چالیں چلنے والوں کی پکڑکے لئے کافی ہو گی۔
ماہ اگست پاکستان کی تاریخ کا ایک مقدس مہینہ ہے جہاں اس مملکت خداداد میں اللہ کا نام لینے والوں کے لئے اللہ نے ہی علیحدہ سر زمین مہیا کرنے کے سامان پیدا فرمائے وہاں اس کے باسیوں کو یہ بات بھی سکھائی کہ جب تم پر زمین تنگ کر دی گئی تھی تو تم کو اللہ نے زمین میں کشادگی عطا کی۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم بھی اس زمین میں بسنے والے لوگوں کے لئے فراخی کے سامان کرو۔ لیکن یہ بھی افسوس کا مقام ہے کہ بحیثیت مسلمان اس قوم نے اپنے تو اپنے سہی، کسی قوم اور مذہب کو بھی نہ بخشا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہےکہ ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، احمدی کوئی بھی شریروں کے شر سے محفوظ نہ رہا۔ اور اس سے بڑا افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کچھ دینِ امن و آشتی، دینِ اسلام کے نام پر کیا گیا۔
بات جشنِ آزادی کی ہو رہی تھی تو جس شہر کا میں نے ذکر کیا وہ پنجاب میں دریائے چناب کے کنارے واقع شہر چناب نگر معروف بہ ربوہ ہے۔ یہ بھی افسوس کا مقام ہے کہ جو نام اس شہر کے باسیوں نے خودتجویز کیا وہ بھی 40 سال بعد ظالمانہ طریق پر یہاں کے رہنے والوں کی مرضی کے بغیر تبدیل کر دیا گیا۔ حالانکہ اب بھی پاکستان بننے کے مخالفین کے نام سے کئی شہر اور شاہرائیں موسوم ہیں لیکن ان کے نام تبدیل نہیں کئے گئے۔

جشن آزادی کو یہاں کے بسنے والوں نے نہایت عقیدت و احترام سے منایا۔14 اگست کا آغاز یہاں دعاؤں اور صدقات سے ہوا۔ ملک میں امن و سلامتی کے لئے دعائیں مانگی گئیں۔ جیسے پاک فوج سے بھی سرسبز پاکستان کے عزم سے یہ جشن منایا اس طرح یہاں کے باسیوں نے بھی نہ صرف ہزاروں پودے لگائے بلکہ علی الصبح اپنے پورے شہر کی صفائی کی جیسے وہ ہرجمعہ کے روز کرتے ہیں۔ عطیہ خون دیا گیا۔ اور انتظامیہ کی جانب سے ایک جامع پروگرام کے تحت جشن آزادی حقیقی رنگ میں منایا گیا۔ سکولز اور کالجز میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔اس شہر ربوہ میں ہر سال کی طرح امسال بھی جشنِ آزادی کے موقع پر یہاں کی عمارات پر و بازاروں میں چراغاں کیا گیا۔جسے دیکھنے کے لئے یہاں کے تمام باسی خواہ مرد ہوں یا خواتین، بچے ہوں یا بچیاں 14 اگست کو سرِ شام ہی نکل پڑے اور اپنی سائیکلوں، موٹرسائیکلوں، گاڑیوں اور رکشوں کو قومی پرچموں سے سجائے بازاروں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے نوجوانوں نے لوگوں کا لہو گرمایا۔بچے بچیوں نے قومی پرچم کی طرز پر بنے کپڑے زیب تن کئے، ہاتھوں میں جھنڈے اور باجے تھامے، بچیوں نے ہرے اور سفیدرنگوں کی چوڑیاں اور مصنوعی جیولری پہن کروطن سے عقیدت کا اظہار کیا۔ یہاں بچوں کے لئے 14 اگست کی اسی طرح ہوتی ہے جیسے کہ چھوٹی اور بڑی عید کا سماں ہو۔ اس کے لئے اسی طرح تیاری کی جاتی ہے جیسے کہ عید کے لئے کی جاتی ہے۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے اس خطہ میں رہنے والوں کا اس طرح میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا جیسے اصحابِ کہف کی غاروں سے سورج کنی کرا کر نکل جاتا تھا۔ فیصل آباد ڈویژن کے لوکل ٹی وی چینل کے پاس اس نم اور زرخیز مٹی والے علاقہ کے لئے وقت نہیں۔
چناب کے کنارہ آباد اس شہر کے باسیوں نے وطنِ عزیز کے قیام کے لئے بھی جدو جہد کی، جنگوں میں بھی کمال دکھایا، اور تعلیم کا میدان تو جیسے یہاں کے کھیت کی ہی مولی ہے۔ پاکستان کے پہلے حقیقی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمدعبد السلام کا تعلق یہاں سے ہے اور انہوں نے یہاں دفن ہونا پسند کیا، مایہ ناز سیاسی شخصیت اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کا تعلق بھی یہاں سے ہے۔ ستارہ بروج اکبر جو کم سنی میں ہی کئی ایوارڈز حاصل کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کر چکی ہے وہ بھی یہیں کی باسی ہے۔ اور اب اس کے چھوٹے بھائی قمر منیر اکبر نے بھی اپنی بہن کے ریکارڈز توڑنا شروع کر دیئے ہیں۔ یہاں کے سکولز کے طلباء و طالبات گزشتہ کئی سالوں سے مختلف تعلیمی میدانوں میں پوزیشنز اور اعلیٰ نمبرز حاصل کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن کسی حکومت نے کبھی بھی یہاں کوئی تعلیمی ادارہ بناکر اس علاقے کے طلباء کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ بلکہ آئینی ترمیم سے جو یہاں کی انتظامیہ کے تعلیمی ادارے قومیائے گئے وہ بھی اپنی زبوں حالی سے حکومتی بے حسی اور بے مروتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

چناب کے کنارے یہ زمین جسے یہاں کے باسیوں نے 1948ء میں بنجر اور صحرائی شکل میں حاصل کیا تھا پھر ایک چیلنج سمجھ کر اسے آباد کیا اور کئی سالوں کی محنت اور جدو جہد سےاِسے سر سبز وشاداب کیا ہے۔ افسوس کہ وقت کے حکمرانوں نے انصاف کے تقاضہ پورے نہ کئے اب دیکھنا ہے کہ آئندہ حکومت جو انصاف کا نعرہ بلند کر رہی ہے کیا انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکے گی یا وقت کے فرعونوں کی صف میں شمار ہوگی۔ حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہوگا کہ انصاف کے معیار قائم کئے جائیں اور یہاں کے رہنے والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ حب الوطنی کیا ہے؟ یہ حقیقت میں جانتے ہیں کہ حب الوطنی ایمان کا حصہ ہے!!!