انٹرویو:فیصل ایدھی صاحب:
تحریر:روحان اے طاہر:

فیصل ایدھی صاحب ایک بہت ہی معروف ، معزز اور نیک طبع انسان محترم عبدالستار ایدھی صاحب کے فرزند ہیں ، آپ باپ کی طرح نہائیت سادہ مزاج ، آواز میں نرمی ، طبیعت میں ٹھہراؤ اور اعلی اخلاق کے مالک ہیں ۔ عبدالستار ایدھی صاحب کے ساتھ 1993 ء سے ان کی خدمات میں معاونت کرتے آرہے ہیں ، ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی تمام تر ذمہ داری آپ کے سپرد کر دی گئی ۔انسانیت کے لئے مخلصانہ طور پرکام کرنے کا ہنر تو کوئی آپ سے سیکھے ، والد کی محبت اور والدہ کی تربیت نے آپ کے خون میں بچپن ہی سے انسانیت کی خدمت کا شوق پیدا کر دیا۔ آپ سے کی گئی گفتگو قارئین کی خدمت میں ایک حدیہ کے طور پر پیش ہے ۔

سوال : عبدالستار ایدھی صاحب نے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کب اور کیسے کیا ؟ اس کے اغراض و مقاصد کیا تھے اور ایدھی صاحب کس مشن کے تحت کام کرنا چاہتے تھے؟

جواب: ایدھی صاحب نے اپنے کام کا باقاعدہ آغاز1951ء سے ایک رضاکارنہ بانٹوا میمن آرگنائزیشن سے کیا جس کے فاؤنڈنگ ممبرز میں سے تھے ۔چونکہ ایدھی صاحب کوہندوستان کے گاؤں بانٹوا سے آئے ہوئے ابھی تین سال کا عرصہ گزرا تھا تو اس وجہ سے اس گاؤں کے ہی مسلمان لوگ جو ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ان کے ساتھ مل کرکراچی کے علاقے میٹھا دار میں یہ آرگنائزیشن بنائی اور آغاز میں ایک میڈیکل ڈسپنسری کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں ایک ڈاکٹر کچھ وقت کے لئے آتا تھا اورمریضوں میں فری دوائی دی جاتی تھی ۔ پھر کراچی میں آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بڑھنے لگے ، ہیلتھ کا فقدان ، بیماریا ں بہت بڑھ گئیں ، پانی ، صفائی اور دیگر مسائل بھی جنم لینے لگے ، تو بسبب اس کے اس کام کو مزید بڑھانا پڑا۔ لیکن اس آرگنائزیشن کے باقی تمام لوگ یہ چاہتے تھے کہ صرف میمن کمیونٹی کا ہی کام کیا جائے ، تو ایدھی صاحب اس بات میں اختلاف رکھتے تھے ایدھی صاحب کے ذہن میں تعصب نہیں تھا وہ سب کے لئے کام کرنا چاہتے تھے چاہے وہ ہندو ہو، عیسائی ہو، مسلمان ہویا کسی بھی مذہب ، ذات سے تعلق رکھتا ہو ۔ ایدھی صاحب کہتے تھے کہ میں ہر انسان کی مدد کروں گا چاہے وہ کوئی بھی ہو ، تو اس طرح اختلافات بڑھ گئے اور میمن کمیونٹی کے لوگوں نے ایدھی صاحب کو فاؤنڈیشن سے باہر کر دیا گیا ۔پھر آہستہ آہستہ وہ آرگنائزیشن ختم ہو گئی ۔ پھر دوسری آرگنائزیشن مدینہ ٹرسٹ کے نا م سے بنائی گئی تو اس میں بھی انہیں لوگو ں نے اعتراضات شروع کر دیے کہ آپ نے اس کا نام مدینہ کے نام پر رکھا ہے اور آپ ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ۔ اس بار جب اعتراضات بڑھے تو ایدھی صاحب نے اس کا نام تبدیل کر کے مدینہ ٹرسٹ سے ایدھی فاؤنڈیشن رکھ لیا.

سوال : جب بانٹوا میمن آرگنائزیشن میمن کمیونٹی سے اختلافات کی بنا پر ختم کی گئی تو مدینہ ٹرسٹ میں وہی لوگ دوبارہ کیونکر شامل کئے گئے؟

جواب: دراصل وہی لوگ اس لئے شامل تھے کیونکہ ایدھی صاحب کو چندہ دینے والے بھی وہی لوگ تھے ، لوگ ایدھی صاحب پر اعتماد کرتے تھے ۔ اور وہ لوگ پروپیگنڈااس لئے کرتے تھے کہ میمن کمیونٹی کے لوگ صرف انہیں لوگو ں کو چندہ دیں جو میمنوں کے لئے کام کرتے ہیں ۔ مسلسل ایدھی صاحب کے پیچھے لگے رہتے تھے اور لوگوں میں تعصب ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے ۔ ایدھی صاحب نے انکا مقابلہ کیا اور جب ایدھی صاحب کا چندہ ختم ہوجاتا تو ایدھی صاحب ایک دو کارکن ہمراہ لیتے اور خود ریڑھی پکڑ کر بازاروں ،گلیوں میں چندہ اکٹھا کرنے نکل جاتے اور کہتے کہ میری مدد کرو میں انسانیت کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ انہیں جاننے لگے اور ان پر لوگوں کا اعتماد مزید بڑھ گیا ۔ ایک طبقہ تھا جو ایدھی صاحب کو بہت پسند کرتا تھا۔ پھر ایدھی صاحب کی خدمات کا تعارف دوسری کمیونٹیز میں بھی ہونے لگا تو 1960ء سے لے کر 1970ء تک ایدھی صاحب نے ان خدمات کو مزید بڑھایا اور جو چندہ ملتا تھا اس سے وہ جگہیں خرید لیتے تھے ، ڈسپنسری کی جگہ خرید لی، پھر اس کے ساتھ والی ، پھر اس کے آگے کی ، اس کے پیچھے کی ۔ پھر نرسنگ سکول کا آغاز ، Maternity Home ، لیڈیز کلینک اور پھر 1970ء کے بعد ایدھی صاحب نے پورے پاکستان میں اپنی ان خدمات کوپھیلاناشروع کر دیا ۔ پھر جب ذمہ داریا ں بڑھ گئیں تو ایدھی صاحب نے اپنے تما م ذاتی کام بھی چھوڑ دیے ، کپڑے کا کام ، بروکری کا کام ۔ انہوں نے کچھ رقم جمع کی ہوئی تھی جس کو پھر انہوں نے اپنے مقاصد کے لئے خرچ کرنا شروع کیا.

سوال: جیسا کہ آپ نے بتایا آغاز میں ایدھی صاحب کو کافی مشکلات کا سامنا رہا ، تو کیا ایدھی صاحب اس منفی پروپیگنڈا کے جواباًبھی کوئی ردعمل دیکھاتے تھے یا ان کی خاموشی سے اپنے مشن پر توجہ رہی ؟

جواب: بس آغاز ہی میں جدو جہد کی بہت ضرورت تھی، جب ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا، جب انہیں کافر قرار دیا گیا ،کہا جاتا تھا کہ یہ بے دین ہے ، اس کو چندہ نہ دو ۔ پھر ایدھی صاحب بھی جوابی پروپیگنڈا کرتے تھے ،ان کو رد کرتے تھے یہ کہہ کر کے جولوگ ایسی آرگنائز یشنز بنا کر کام کرتے ہیں انکا مقصد صرف ٹیکس سے بچنا ہوتا ہے ، یہ ڈمی آرگنائزیشنزبنا کر فراڈ کرتے ہیں ۔ تو جب ایدھی صاحب جواب دیتے تھے تو انہیں یعنی مخالفین کو اور آگ لگتی تھی اس طرح پھر پروپیگنڈا مزید بڑھتا گیا ۔ ایدھی صاحب کو چونکہ لوگ پسند کرتے تھے تو اس وجہ سے بھی یہ پروپیگنڈا ذیادہ مدت اختیار نہیں کر سکا اور ختم ہوگیا.

سوال: جب کسی ایسی آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا جاتاہے تو اس کا بانی تو بہت لگن اور محنت سے خدمت کرتا ہے ، لیکن جب وہ آرگنائزیشن اولاد کے ہاتھوں میں آتی ہے تو وہ کمرشلائز ہو جاتی ہے ۔ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ ایدھی ٹرسٹ سے متعلق آپ اس بارہ میں کیا کہنا چاہیں گے ؟

جواب : میرے خیا ل سے ایدھی فاؤنڈیشن کو کمرشلائز ہونا اتنا آسان نہیں ہوگا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام اس کو اپنا سمجھتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہنا ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی جڑیں بہت مضبوط ہیں ۔ ایدھی صاحب کی تعلیمات ہمارے لئے بہت ذیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ ایدھی صاحب کے اصولوں اور ارادوں سے ہم سب واقف ہیں ۔ مجھے نہیں لگتا کہ اتنی آسانی سے ایدھی فاؤ نڈیشن پٹری سے اتر جائے گا یا اپنے اغراض و مقاصد سے ہٹ جائے گا.

سوال : آپ نے اپنے والد صاحب کے ساتھ کب سے ان خدمات میں حصہ لیا ؟ اور آپ کے بہن بھائیوں میں سے اور کون کون اس ٹرسٹ کا حصہ بنا ؟

جواب: اس کام میں ممی اور میری بہن کبریٰ ہمارے ساتھ ہیں ، اور مجھے باقاعدہ طور پر 1993ء میں ایدھی صاحب نے اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا میں چونکہ امریکا میں تھا تو ایدھی صاحب مجھے بار بار کہتے تھے کہ اگر وہاں دل نہیں لگتا تو یہاں واپس آجاؤ تو آخر ایک دن میں واپس آہی گیا ۔ وہاں پر میرا دل نہیں لگتا تھا ۔ میرا خواب تھا کہ میں ایدھی صاحب کے ساتھ کام کروں ، پاکستان کے لئے کام کروں ،یہاں کے غریب عوام کے لئے کام کروں جو تکلیف میں ہیں ۔ ایدھی صاحب کے ساتھ رہ کر اور انکی باتیں سن کر ذہن تو میرا بن ہی گیا تھا پھر جب میں باہر گیا تو میرا دل یہیں پر تھا تو میں تین سال کے بعد واپس آگیا ۔ میرے آتے ہی ایدھی صاحب نے مجھے مکمل طور پر اس کام میں اپنے ساتھ کر لیا اور پھر مستقل بنیادوں پر مجھے ذمہ داریا ں ملنا شروع ہوگئیں ۔ میں ذیادہ تر ایمبر جنسی کے کاموں اور انتظامی کاموں میں دلچسپی لیتا تھا ، ہمارے ادارے کے اخراجات کس طرح سے بچائے جا سکتے ہیں ، ایدھی صاحب کو میرے سب کام بہت پسند آئے جیسے کہ پٹرول کی مد میں پورا سسٹم تیار کیا ، گاڑیوں کی مرمت ،پھر غیر ضروری گاڑیوں کا استعمال ختم کیا ۔ اس سے ہمارے اخراجات بہت کم ہوگئے اوراس کام کو کرنے کی ہماری طاقت مزید بڑھ گئی.

سوال : آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی صاحب اپنی زندگی میں اس مشن کو کس حد تک کامیاب کر پائے ہیں ؟انہوں نے کتنے ایدھی سنٹرز کا قیام کیا ، کتنی ایمبو لینسز پاکستانی عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ؟ نیز ان کی وفات کے بعد چندہ میں کوئی کمی بیشی ، ایدھی سنٹرز یا ایمبولینسزکی تعداد میں کمی یا ذیادتی ہوئی ہے؟

جواب: ایدھی صاحب جتنا بھی نیٹ ورک بنانا چاہتے تھے وہ مکمل کر چکے تھے ۔ تما م تر Highways پر اور شہروں کے اندر کل چھوٹے بڑے ملا کر 350ایدھی سنٹرز کام کر رہے ہیں او رپاکستان میں رننگ میں کل00 17سے 1800ایمبو لینسز ہیں ۔ میرے آنے کے بعد دو سالوں میں 4سے 5ایدھی سنٹرز کا اضافہ کیا گیا ۔ پاکستان کی آبادی کے لحاذ سے ایمبولینسز کی تعداد بہت کم ہے اسے اس تعداد کا تین سے چار گنا ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان میں ان کی بہت ضرورت ہے اور ہم انشاء اللہ آئندہ تین چار سالوں میں اس تعداد کو بھی بڑھائیں گے۔ اور جہاں تک چندہ کی بات ہے تو پہلے سال کمی آئی تھی کیونکہ ہمارا ایک بہت بڑا چندہ Middle East سے آتا ہے او ر مڈل ایسٹ کے اندر خانہ جنگی اور بد امنی سے بہت فرق پڑا ہے لیکن ہمیں اُمیدہے کہ انشاء اللہ آئندہ سالوں میں اس میں بھی بہتری آئے گی.

سوال : ایدھی سنٹر میں یتیم اور مسکین بچوں کو نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل تعلیم بھی دی جاتی ہے ، لیکن ان بچوں کا تعلیم کے بعد مستقبل کیا ہوتا ہے؟

جواب: آج سے سات آٹھ سال پہلے ہمارے پاس بچوں کی بہت بڑی تعداد ہوا کرتی تھی ، لیکن پھر میں نے ایدھی صاحب سے مشورہ کیا اور ایک بس تیار کی جس میں بچو ں کوبیٹھاکرہم پورے پاکستان میں دورہ کرتے اور بچہ جس بھی گاؤں کا نام لیتا ہم وہاں جا کر اعلان کرواتے اور بچے کو اس کے ورثاء تک پہنچاتے۔ہمارے پاس تقریباً 800سے 900بچے ایسے ہوا کرتے تھے جو بالکل نارمل حالت کے ہوتے تھے ۔ اسطرح پورے پاکستان میں چکر لگانے سے ہمیں بہت فائدہ حاصل ہوا اور تقریباً80%بچے اپنے گھروں کو پہنچ گئے ۔اب تقریباً 200سے 250کے قریب بچے ہیں جن میں سے اکثر لڑکیاں ہیں ۔جن بچوں کے ورثا ء نہیں ملتے تھے ان کی تعلیم وتربیت کرنے بعدہم انہیں ایدھی سنٹر میں ہی مختلف کاموں کے لئے رکھ لیتے تھے اور یہیں پر ان کی شادیاں بھی کروا دیتے تھے ۔ لیکن چونکہ دونوں طرف لڑکے اور لڑکی کی فیملی نہیں ہوتی تو ہمیں بہت فکر رہتی تھی تو اب ہم کو شش کرتے ہیں کہ لڑکے کی بھی اور لڑکی کی بھی شادی باہر کروا دیں تاکہ انہیں ایک ایسی فیملی مل جائے جو ان کا خیال رکھ سکے.

سوال: عبدالستار ایدھی صاحب چونکہ ایک نہائیت سادہ طبع اور نیک دل انسان تھے یہی وجہ تھی کہ انکا ہر ایک کے ساتھ گہرا لگاؤ بھی تھا، ان کی وفات کے بعد ایدھی ہوم میں لوگوں کے جذبات ، احساسات ، یہاں کا ماحول کیسا رہا؟

جواب: ایدھی کے اندر رہنے والے لوگ ایدھی صاحب کے ساتھ بہت ذیادہ جڑے ہوئے تھے اور وہ بہت مایوس ہوئے تھے ، انہیں بہت پریشانی تھی ۔ ہمارے لئے یہ دو سال بہت تکلیف دہ تھے لیکن پھر ہم نے سوچ لیا کہ ہم نے ایدھی صاحب کے بغیر ، ان کی یادوں ، ان کی تعلیمات کے ساتھ اس ایدھی ہوم کو چلانا ہے ۔ اور اسی بنیاد پر ہم اس کو چلا رہے ہیں.

سوال: بحیثیت باپ عبد الستار ایدھی صاحب کا آپ کے ساتھ کیسا تعلق تھا ؟ کیونکہ ایدھی ٹرسٹ کے حوالہ سے ایک رخ تو ہم سبھی جانتے ہیں ، لیکن باپ کے روپ میں وہ کیسے انسان تھے اس پر آپ روشنی ڈال دیجیے۔

جواب: ایدھی صاحب جو اندر تھے وہی باہر تھے ، ان میں فرق وا لی بات نہیں تھی ۔ گھر تو انہوں نے بنایا نہیں ، ہم نے اپنی نانی کے گھر پر ہی پرورش پائی اور وہیں پر ہماری شادیاں ہوئیں۔ ایدھی صاحب کا ہمارے ساتھ تعلق اس ادارے کے توسط سے ہی تھا ہمارے تعلق کے درمیان یہ ادارہ ایک پُل کا کام کر رہا تھا ۔ ایدھی صاحب کے ساتھ جب بھی ملاقات ، گفتگو ہوتی تو ادارہ درمیان میں لازمی ہوتا تھا ۔کیونکہ ایدھی صاحب نے اپنا اوڑھنا بچھونا ، رہنا سہنا سب ادارے کو دے دیا تھا ۔ پوری زندگی اس کے لئے وقف کی ہوئی تھی ۔ 24 گھنٹے اس ادارے میں رہتے تھے .

سوال: عوام کے لئے آپ کوئی پیغام دینا چاہیں ؟

جواب: عوام کے لئے میں یہ ضرور کہوں گا کہ آپ ان اداروں کا ساتھ دیں جو فرقہ پرستی پر یقین نہ رکھتے ہوں ، جو تقسیم پر یقین نہ رکھتے ہوں، جو لسانیت پر یقین نہ رکھتے ہوں تاکہ ایک اچھا مضبوط اور بہتر ملک بنا یا جا سکے ۔ ایک سوشل ویلفئیر سٹیٹ بنائی جا سکے جس میں ہر انسان کا خیال رکھا جائے ، ہر انسان کو انسان سمجھا جائے.