ماہر معاشیات عاطف میاں کو احمدی ہونے کی بناء پر اکنامک ایڈوائزری کونسل سے نکالناقابل مذمت ہے۔الطاف حسین
احمدی بھی پاکستان کے شہری ہیں اور ان کابھی پاکستان پرپوراحق ہے۔الطاف حسین
جناب الطاف حسین نے ان خیالات کااظہار ہفتہ کواپنے خطاب میں کیا جو سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان سمیت دنیابھرمیں براہ راست نشرکیاگیا۔ انہوں نے کہاکہ احمدی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشیات عاطف میاں کواکنامک ایڈوائزری کونسل میں شامل کرنے کے بعد ان کے عہدے سے ہٹاکر حکومت نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ،پاکستانی پرچم میں موجود سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔اگرکوئی غیرمسلم ہے ، یاکسی بھی مذہبی عقیدے سے تعلق رکھتاہے تواس بنیادپر اسے ملک میں کسی بھی منصب پر فائزہونے یا کسی بھی شعبہ میں خدمات کی انجام دہی سے روکناکسی بھی صورت میں درست عمل نہیں ہے ۔
انہوں نے سوال کیاکہ کیاحکومت احمدیوں، عیسائیوں، ہندؤوں،سکھوں اورتمام غیرمسلموں کو پاکستان سے بیدخل کرناچاہتی ہے ؟ اگریہی کچھ مغربی ممالک نے مسلمانوں کے ساتھ کرناشروع کردیا تو کیاہوگا؟ انہوں نے کہاکہ عاطف میاں کو ایڈوائزری کونسل سے نکالنے پر کونسل کے مزید دوارکان عاصم خواجہ اورعمران رسول نے بھی احتجاجاً کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیاہے ، اب عمران خان کو چاہیے کہ وہ اب اپنی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں مولاناخادم رضوی، حافظ سعید، مولانامسعوداظہر، یوسف لدھیانوی، احسان اللہ احسان، مولوی عبدالعزیز اورزید حامد کوشامل کرلیں اور اعلان کردیں کہ نئے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ احمدیوں اورتمام مذہبی اقلیتوں کے ساتھ یہ ظلم اورنارواسلوک بند کیا جائے اورسب کوبرابرکاشہری سمجھاجائے ورنہ پاکستان میں نفرت اورانتہاپسندی توفروغ پاسکتی ہے ،ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
محض مذہبی عقیدے کی بنیادپر احمدیوں کو ملک کی خدمت سے روکناسراسرزیادتی اور میرٹ کا قتل ہے ۔ الطاف حسین
قائداعظم کی تشکیل کردہ کابینہ میں ایک احمدی چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان بھی شامل تھے، وہ پہلے وزیرخارجہ تھے
قیام پاکستان کی جدوجہدمیں احمدی بھی شامل تھے، احمدیوں نے فوج اورمختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں
عاطف میاں کو ان کے عہدے سے ہٹاکر حکومت نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں
ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین نے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے ماہر معاشیات عاطف میاں کومذہبی عقیدے کے لحاظ سے احمدی ہونے کی بناء پر اکنامک ایڈوائزری کونسل سے ہٹانے کی شدیدمذمت کی ہے اور کہاہے کہ جس طرح دیگرمذاہب کے ماننے والے پاکستانیوں کاملک پر حق ہے اسی طرح احمدی بھی پاکستان کے شہری ہیں اورپاکستان کے شہری کی حیثیت سے ان کابھی پاکستان پرپوراحق ہے، محض مذہبی عقیدے کی بنیادپر انہیں ملک کی خدمت سے روکنااوران پرکسی قسم کی قدغن لگاناسراسرزیادتی ہے اور میرٹ کا قتل ہے ۔
انہوں نے سوال کیاکہ کیاہم پاکستان کے آئین اورپرچم سے مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کو نکال کرپھینک سکتے ہیں؟انہوں نے کہاکہ جب احمدیوں کوآئین میں غیرمسلم قراردیدیاگیاتوکیااب انہیں مذہبی اقلیتوں میں بھی شمار نہیں کیاجائے گا؟ کیااب احمدیوں کو پاکستانیت سے بھی خارج کیاجائے گا؟ کیا احمدی انسان بھی نہیں ہیں؟ جناب الطا ف حسین نے کہاکہ پاکستان کا آئین مذہبی اقلیتوں کوعبادت گاہیں قائم کرنے اوراپنی عبادات کرنے کاحق دیتاہے لہٰذادیگرمذہبی اقلیتوں کی طرح احمدیوں کوبھی اپنی عبادت گاہیں قائم کرنے اوراپنی عبادات کرنے کا پورا حق ہے،اگرکوئی یہ کہتاہے کہ احمدی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے توکیا ہندو، سکھ ،عیسائی اوردیگرمذاہب کے ماننے والے ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جس طرح مسلمانوں کوزندہ رہنے کاحق ہے اسی طرح تمام غیرمسلموں کوبھی زندہ رہنے کاحق ہے، مذہبی عقائد کی بنیادپر کسی بھی غیرمسلم کوقتل کرنا ظلم ہے ، قتل قتل ہوتاہے خواہ مسلمان کاہو، عیسائی کا، ہندو کا، سکھ کا یااحمدی کاہو۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کسی بھی مذہب کے ماننے والے سے کوئی نفرت نہیں کرتے تھے، وہ تمام مذاہب کااحترام کرتے تھے ،وہ پاکستان کوایک تھیوکریٹک اسٹیٹ یعنی مذہبی بنیاد پرست ملک نہیں بلکہ ایک لبرل اورپروگریسو ملک بناناچاہتے تھے ۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ قیام پاکستان کی جدوجہدمیں احمدی بھی شامل تھے، قائداعظم کی تشکیل کردہ پاکستان کی پہلی کابینہ میں ایک احمدی چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان بھی شامل تھے، وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ اورپہلے ایشائی اور واحدپاکستانی جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اورعالمی عدالت انصاف کی صدارت کی اور 1961ء میں اقوام متحدہ میں پہلے پاکستانی نمائندے بنے۔جوگندر ناتھ منڈل ہندوبرادری سے تعلق رکھتے تھے، وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی پہلی کابینہ میں پاکستان کے پہلے وزیرقانون ومحنت مقرر ہوئے۔انہوں نے کہاکہ قیام پاکستان کی جدوجہد اورملکی ترقی میں اقلیتوں کے کردار اور قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیئس عیسائی تھے، وہ پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس مقررہوئے، اسی طرح پارسی برادری کے رستم سہراب جی سدھوا چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے جبکہ جسٹس دراب پٹیل سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ اسی طرح ہندوبرادری کے جسٹس رانابھگوان داس قائم مقام چیف جسٹس آف سپریم کورٹ مقررہوئے ۔
جناب الطا ف حسین نے کہاکہ فوج میں عیسائیوں اوردیگرغیرمسلموں کے ساتھ ساتھ احمدیوں نے بھی وطن کی خاطر جانیں دی ہیں ۔دیگرشعبوں میں بھی احمدی عقیدے کے ماننے والوں نے ملک کیلئے خدمات انجام دیں،50 کی دہائی میں ایم ایم مرزا اسٹیٹ بینک کے گورنررہے ، ڈاکٹرعبدالسلام ایک سائنس دان تھے،انہیں فزکس کے شعبہ میں ان کی علمیت،قابلیت اورخدمات کے پیش نظر نوبل انعام سے نوازا گیا ۔ وہ پہلے پاکستانی تھے جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
یہ صرف ڈاکٹرعبدالسلام کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے عزت اورفخر کی بات کی تھی لیکن عقیدے کے لحاظ سے احمدی ہونے کی وجہ سے ان کی خدمات کوفراموش کردیاگیا،آج ان کاکہیں تذکرہ تک نہیں کیاجاتا۔کچھ عرصہ قبل قائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادمیں ان کے نام سے قائم شعبہ کانام تک تبدیل کردیا گیا۔
جناب الطا ف حسین نے کہاکہ عاطف میاں کواکنامک ایڈوائزری کونسل میں شامل کرنے کے بعد صرف مذہبی عقیدے کی بناء پرنکال دیاگیا اور وفاقی وزیراطلاعات اس کیلئے یہ تاویل پیش کررہا ہے کہ حکومت مذہبی مکاتب فکر کوساتھ لیکرچلناچاہتی ہے ۔