پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں مبینہ توہینِ مذہب کے واقعے کے بعد کشیدگی کی فضا ہے جبکہ حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔

جہلم میں جمعے کی شب مشتعل ہجوم نے مبینہ توہینِ مذہب کے الزام کے بعد ایک فیکڑی پر حملہ کر دیا تھا جہاں وہ شخص ملازمت کرتا ہے جس پر وہاں کے ہی ایک ڈرائیور نے قرآن کو مبینہ طور پر نذرِ آتش کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جہلم واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے فوج کو صوبائی حکومت کے مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کے اجازت نہیں دی جائے گی۔

جہلم کے ضلعی پولیس افسر مجاہد اکبر خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ الزام کے بعد احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازم قمر احمد طاہر کو پولیس نے حراست میں لیا تھا اور ان کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا جا چکا تھا۔

تاہم جماعت احمدیہ نے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ ’ایک منصوبے کے تحت فیکٹری کو آگ لگا کر احمدیوں کو زندہ جلانے کی عمداً کوشش کی گئی۔ کسی شخص نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دشمنی کی آگ کے تحت قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کا شر انگیز الزام لگایا ہے۔