چناب نگر کو قائم ہوئے70سال بیت گئے

تحریر:غدیر احمد بھٹی
چناب نگر کو قائم ہوئے70سال بیت گئے۔
چناب نگر کے حوالہ سے چند باتیں زیر غور ہیں:
20 ستمبر 1948کو چناب نگر ضلع چنیوٹ کے مقام پر جماعت احمدیہ کے دوسرے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جماعت احمدیہ کے دوسرے مرکز کی بنیاد رکھی۔ اس شہر کا ابتدائی نام ربوہ رکھا گیا جو کچھ سال بعد حکومت نے تبدیل کرکے چناب نگر کر دیا تھا۔ان 70 سالوں میں اس شہر کے باسیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بے پناہ محنت کی اور جس کی بدولت اس عرصہ میں اس چھوٹے سے شہر نے ہر میدان میں مثالی ترقیات قائم کیں۔ تعلیم، صحت، رفاہِ عامہ، انسانیت کی خدمت عوام الناس کی بنیادی سہولیات کا یہاں خاص خیال رکھا جاتا ہے۔تعلیم کے میدان میں یہاں کی مٹی بہت نم اور زرخیز ہے۔ سکول اور کالجز کے طلباء و طالبات شہر، ضلع ، ڈویژن، تحصیل، صوبائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔پاکستان کے سب سے پہلے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی اسی مٹی میں دفن ہیں.آپ پاکستان کے پہلے نوبیل انعام یافتہ مایہ ناز سائنسدان ہیں.اس شہر میں فضل عمر ہسپتال کے تجربہ کار ڈاکٹرز، نور العین و بلڈ بنک عطیہ چشم اور خون کی بروقت ترسیل سے جبکہ طاہر ہارٹ انسٹیٹوٹ کے نام سے امراضِ دل کا عالمی شہرت یافتہ ہسپتال شب و روز انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے۔اس کے علاوہ یہاں طاہر ہومیوں‌ پیتھک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا ادارہ بھی عرصہ دراز سے قائم ہے جو روزانہ کی بنیاد پر تقریباٰ پانچ سو مرد و خواتین کو فری ہومیو پیتھک ادویات فراہم کرتا ہے.شہر چناب نگر کے باسیوں میں انسانی ہمدردی کا جذبہ اس قدر پایا جاتا ہے کہ چھوٹے سے بچے سے لے کر بزرگ احباب تک کوئی بھی کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کی مدد کیلئے ہر وقت بے چین رہتا ہے.اور ایک دوسرے کا‌خیال رکھنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے.لیکن افسوس کے حکومت پاکستان کی جانب سے یہاں کے باسیوں کو کوئی ترجیح نہیں دی جاتی.جبکہ اس شہر کے باسی ضلع چنیوٹ میں سب سے زیادہ اور سو فیصد ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتے ہیں.اس شہر میں حکومتی ادارے تو قائم ہیں لیکن وہ اپنی تنخواہوں اور کرسیوں تک محدود ہیں .شہر بھر کی سڑکیں تباہ و برباد ہوچکی ہیں لیکن کبھی کسی حکومتی ادارے نے یہاں ترقیاتی کام نہیں کروایا بلکہ شہر کے لوگ جو کام اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں وہ بھی سرکاری ادارے اپنی فائلوں میں نوٹ کرکے حکومتی خزانے سے یہ کہ کر پیسے وصول کرلیتے ہیں کہ یہ کام ہم نے کروایا ہے.حکومت کی طرف سے شہر میں کوئی تفریح کا سامان مہیا نہیں کیا گیا۔ پختہ سڑکوں کی کمی نے شہریوں کا جینا اجیرن کیا ہوا ہے.شہر بھر میں ہر طرف مٹی گردو غباراور آلودگی چھتری اوڑھے ہوئے ہے.اس شہر کے رہنے والے باسیوں نے حکومت پاکستان کو اتنے عرصہ میں کروڑوں اور شائد یہ تعداد اتنے سالوں بعد اربوں روپے تک پہنچ گئی ہو ٹیکس دیا ہے حکومت کو چاہیئے کہ وہ مساوی حقوق فراہم کرتے ہوئے اس شہر میں ترقیاتی کام اسی طرح کروائے جس طرح لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں کروائے جاتے ہیں.اور یہاں کے باسیوں کو بھی اسی طرح مساوی حقوق فراہم کیئے جائیں.جیسے پاکستان میں رہنے والے دوسرے شہروں کے باسیوں کو مہییا کیئے جاتے ہیں