اسلام آباد( ربوہ ٹائمز نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آسیہ بی بی کی ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا.

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ:

کوئی چینل سماعت پر تبصرے نہیں چلائے گا،عدالت نے سماعت سے متعلق پروگرام کرنے سے بھی منع کر دیا.

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ توہین رسالت کے جرم میں ہائیکورٹ سے موت کی سزا پانے والی آسیہ بی بی کی درخواست کی سماعت کی۔خصوصی بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی شامل ہیں۔

وکیل صفائی سیف الملوک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ:

14 جون 2009 کا واقعہ ہے اور 19 جون 2009 کو واقعے کی رپورٹ درج ہوئی، گاؤں کٹاں والا کے امام مسجد نے ایف آئی آر درج کرائی جس کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار کیا.

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ:

ریکارڈ پر ایسی چیزیں ہیں’ جس پر وکیل صفائی نے کہا مدعی مقدمہ خود واقعے کا گواہ بھی نہیں ہے اور اس کے واقعہ نوٹس میں لیے جانے پر بھی بیانات میں تضاد ہے جبکہ مدعی کا موقف ہے کہ ایف آئی آر کی درخواست کا فیصلہ عوامی مجمع میں ہوا۔ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ڈی سی او اور ڈی پی او سے ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت نہیں لی گئی، امام مسجد نے کہا گاؤں والوں نے آسیہ بی بی کو مارنے کی کوشش نہیں کی.

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل صفائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

‘ہمیں آپ کی گفتگو سے جو بات پتہ چلی کہ امام مسجد براہ راست گواہ نہیں اور اس کے سامنے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے گئے.

چیف جسٹس نے کہا:

امام مسجد کے بیان کے مطابق 5 مرلے کے مکان میں پنچایت ہوئی اور کہا گیا کہ پنچایت میں ہزار لوگ جمع تھے.

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ:

ایف آئی آر میں درج کرایا گیا آسیہ بی بی عیسائی مبلغہ ہے، کیا واقعی وہ مبلغہ ہیں؟ جس پر وکیل صفائی نے کہا جی نہیں آسیہ کبھی بھی مبلغہ نہیں رہی.

وکیل صفائی نے کہا کہ:

وجہ عنادآسیہ اورساتھی خواتین میں جھگڑے کاہوناہے،آسیہ بی بی نے بائبل پرحلف دیاکہ نبی پاک اورقرآن پاک کااحترام کرتی ہے، تفتیش کرنی والے ایس پی جائے وقوعہ پرگئے ہی نہیں،ایس پی نے دفتربلواکرمتعددلوگوں کے بیان ریکارڈکیے.

وکیل سیف الملوک نے کہا کہ:

انکوائری رپورٹ بھی ایس پی نے خودنہیں لکھی،آسیہ بی بی کے آباواجداد تقسیم کے بعدسے رہ رہے ہیں،اس سے قبل آسیہ بی بی کے خاندان پرایسا الزام نہیں لگایاگیا.

وکیل صفائی نے کہا کہ:

الزام لگانے والی خواتین کاحلف پرجھوٹ پکڑاگیاہے،ساتھی خواتین نے آسیہ بی بی کے ہاتھ سے پانی پینے سے انکارکیاتھا، آسیہ بی بی کبھی عیسائی مبلغ نہیں رہی،دیہاڑی دارمزدورہے،ایک ان پڑھ عورت بغیرمطالعہ کیسے اتنے سنگین ریمارکس دے سکتی ہے؟

وکیل کا کہناتھا کہ:

حدکے مقدمات میں گواہ کاایک بھی جھوٹ پکڑاجائے تواسکی گواہی ساکت ہو جاتی ہے.

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ:

واقعہ اس وقت پیش آیاجب دوسری خواتین نے آسیہ کومذہب کاطعنہ دیا،سورة انعام میں کہاگیاہے کسی کے جھوٹے خداکوبرا نہ کہوتاکہ وہ تمہارے سچے خداکوبرانہ کہے،قرآن کہتا ہے گواہی مت چھپاؤچاہے تمہارے خلاف ہی کیوں نہ جائے.

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ:

فوجداری مقدمات میں ایف آئی آراندراج میں تاخیرکافائدہ ملزم کوہی ہوتا ہے.

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آسیہ بی بی کی ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا.

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ:

کوئی چینل سماعت پر تبصرے نہیں چلائے گا.

عدالت نے سماعت سے متعلق پروگرام کرنے سے بھی منع کر دیا.