پاکستان( ربوہ ٹائمز) آسیہ بی بی کی رہائی کا تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا ہے اور سینئر جج جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کی حمایت میں اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

اس فیصلے میں جن اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ یہ ہیں۔

’توہین رسالت کے جھوٹے الزام‘

فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت نے قرآن و حدیث اور آئین پاکستان کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب اور پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت یا عمر قید ہے۔

یہ بات ثابت کرنے کے بعد عدالت نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ:

اس جرم کا غلط اور جھوٹا الزام بھی اکثر لگایا جاتا ہے.

عدالت نے مشعال کیس اور اکرم مسیح کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ:

پچھلے اٹھائیس برس میں ایسے 62 افراد کو مقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا جن پر توہین مذہب یا پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا.

عدالت نے اس بارے میں لکھا ہے:

’کسی کو حضرت محمد (ص) کی توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی جرم کو سزا کے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے بعض اوقات کچھ مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قانون کو انفرادی طور پر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حقائق کے مطابق 1990 سے تقریباً 62 افراد توہین رسالت کے الزام پر قانون کے مطابق مقدمے کی سماعت سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ نامور شخصیات بھی جنہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ توہین رسالت کے قانون کا چند افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہو رہا ہے، خطرناک نتائج کا سامنا کر چکے ہیں۔ اس قانون کے غلط استعمال کی ایک حالیہ مثال مشعال خان کا قتل ہے جو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علم تھا جس کو اپریل 2017 میں یونیورسٹی کے احاطے میں مشتعل ہجوم نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے کوئی توہین آمیز مواد آن لائن پوسٹ کیا ہے۔‘