چنیوٹ ( ربوہ ٹائمز ) چنیوٹ کےمولوی کا انوکھا اعلان، جس نےاس شیعہ عورت کاجنازح پڑھا وہ دوبارہ کلمہ پڑھے اور نکاح کرے.

تفصیلات کے مطابق:

گاﺅں کے امام مسجد نے اعلان کردیا کہ:

مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والی خاتون کا نماز جنازہ پڑھنے والے افراد کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ مولوی ایک فتویٰ بھی لے کر آگیا جس کے بعد متعدد لوگوں کا دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا.

چنیوٹ کے تھانہ رجوعہ کے علاقہ چک نمبر 136 رجوکہ میں زرینہ بی بی نامی خاتون کا انتقال ہوا تو وہاں کے امام مسجد نے اس کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔ اس کے اہل خانہ ملحقہ گاﺅں چک نمبر 136 کے مولوی کاشف شاہ کو بلوا کر لائے اور اس کا جنازہ پڑھایا۔ خاتون کا تعلق امام مسجد کے مخالف فرقے سے تھا جس کے باعث اس نے اعلان کردیا کہ جس جس نے زرینہ کا جنازہ پڑھا ہے اس کا نکاح ٹوٹ گیا ہے اور اب انہیں دوبارہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا اور دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

گاوں کے رہائشی قاسم علی تصور نے میڈیا کو بتایا کہ:

چند روز پہلے گاؤں کے امام مسجد میاں خالد بشیر نے ان کی بھانجی کی نمازِ جنازہ پڑھوانے سے اس لیے انکار کیا کہ ان کا تعلق مخالف مسلک سے تھا جس کے بعد قریبی گاؤں کے امام مسجد کو بلایا گیا۔ تاہم میاں خالد نے اعلان کیا کہ اس نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے تمام لوگ اب مسلمان نہیں رہے اور ان کا دوبارہ نکاح ہوگا.

قاسم علی نے میڈیا کو بتایا کہ:

امام مسجد میاں خالد اس سلسلے میں ایک فتویٰ بھی لے کر آئے جس کے بعد علاقے کے لوگوں نے ان کی بات مان لی۔قاسم علی تصور کہتے ہیں کہ ‘لوگوں نے امام میاں خالد سے پوچھا کہ اس نئے نکاح کی رجسٹریشن کیسے ہو گی، تو انھوں نے بتایا کہ نکاح کی رجسٹریشن پہلے ہو چکی ہے اور اب دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں۔’تاہم اب علاقے کے لوگوں کے مطابق میاں خالد کہتے ہیں کہ ‘چونکہ عدت پوری نہیں ہوئی، اس لیے دوسرا نکاح بھی مکروہ ہے، اور وہ عدت کی تکمیل کے بعد پھر نکاح کروائیں گے.

دوسری جانب گاؤں کے رہائشی قاسم علی تصور کی بھانجی کی نماز جنازہ پڑھوانے والے چک نمبر 137 کے امام مسجد سید کاشف عمران شاہ کا کہنا ہے کہ:

’میں نے یہ نماز جنازہ پڑھوائی اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ جو مولانا میاں خالد بشیر نے کہا ہے کہ نکاح ٹوٹ گیا ہے اور دوبارہ نکاح کروا کر رہے ہیں اس طرح سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔‘

اسی معاملے پر علاقے کے لوگوں کے مطابق مقامی افراد پولیس کے پاس درخواست بھی لے کر گئے تھے۔ پولیس نے ابتدائی درخواست کے بعد مولوی سمیت بعض لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔فریقین پولیس کی موجودگی میں آپس میں گتھم گتھا ہوئے تھے جس کے بعد انہیں نقصِ امن کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تاہم اشتعال انگیزی پھیلانے اور نکاح کا معاملہ پیچھے ہی رہ گیا اور پھر علاقہ مجسٹریٹ نے لڑنے کی وجہ کا تعین نہ ہونے کے باعث یہ مقدمہ ہی خارج کر دیا۔

ڈی پی او چنیوٹ سے اس معاملے کا پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ:

ان کے پاس ایسی کوئی درخواست نہیں آئی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان خبروں کی تصدیق کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اشتعال انگیز یا نفرت آمیز بیانات جیسے معاملات کو انسدادِ دہشت گردی کا محکمہ یعنی سی ٹی ڈی دیکھتا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ:

‘اگر کسی گاؤں میں تیس چالیس افراد نے دوبارہ نکاح پڑھوایا ہے تو کیا یہ جرم ہے؟ ہمارے نوٹس میں یہ واقعہ نہیں، تاہم میں اس کو ضرور چیک کروں گا۔’