اوریا مقبول جان صاحب جھوٹ کی پھکی روز نہیں بکتی

تحریر : اصغر علی بھٹی مغربی افریقہ

واہ اوریا مقبول جان صاحب واہ۔ خیر سے آج آپ نے اپنے زور خطابت سے ثابت کر ہی دیا کہ پانی بھیڑ کا بچہ ہی گدلا کر رہا تھا۔آپ نے14 جنوری 2019 کے یوٹیوب ویڈیو پروگرام میں اسرائیلی وزارت خارجہ کی صرف ایک ٹویٹ اور اس کے ساتھ ایک اسرائیلی احمدی کے اسلام کے حوالے سے چند الفاظ کہ اسلام محبت اور امن و آشتی کا مذہب ہے کی ویڈیوپر پورا پروگرام کیا ہے اور جی بھرکر جماعت احمدیہ کو کوسنے دئیے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لو جی آخر اس ٹویٹ کی وجہ سے وہ نادر ثبوت ہاتھ لگ گیا ہے کہ قادیانیوں کے اسرائیل سے تعلقات ہیں اور ان تعلقات سے شہہ پاکر اسرائیل مظلوم فلسطینوں پر خوفناک مطالم ڈھا رہا ہے یا یہ کہ جس قوم کے لئے اسرائیل کی طرف سے ایسی چند الفاظ والی تعریفی ٹویٹ ہو جائے تو یہ دلیل بن جاتی ہے ان کے دلوں میں فلسطینیوں کے لئے کوئی محبت نہیں۔ اور یہ ایک ٹویٹ اتنا پکا اسلام دشمنی کاثبوت ہے کہ اس ٹویٹ کی وجہ سے ربوہ ٹائمز کو چلانے والی پوری کمیونٹی پر غداری کا مقدمہ چلادیا جا ئے۔
حضور یہ درست ہے کہ آپ بہت زورآور ہیں ۔بلکہ طاقت کے نشے میں چور ہیں۔کوئی آپ کا منہ نہیں پکڑ سکتا۔مگر اگر جان کی امان پاوں تو غدار بن کر پھانسی پر لٹکنے سے پہلے پہلے ایک گستاخی نما سوال ضرورکرنا چاہوں گا کیونکہ یہ ہر پھانسی دئیے جانے والے کا حق ہے کہ اس سےآخری خواہش پوچھی بھی جاتی اور پوری بھی کی جاتی ہے۔ تو سرکار اگر جس کمیونٹی کے لئے اسرائیل کی وزارت خارجہ ایک ٹویٹ کردے وہ دشمن اسلام ،صیہونی ایجنٹ ،فلسطینی خون بیچنے والی ہے تو ان مندجہ ذیل اسلامی ممالک کے بارے میں کیا کیا خیال ہے ترکی،مصر،اردن،عمان،نائیجر،مراکش،تیونس،قطر اور،موریطانیہ جن میں اسرائیل کی پوری پوری ایمبیسیز قائم ہیں۔ اور آج سے نہیں کئی سالوں سے قائم ہیں۔ دن رات ٹویٹس بھی ہوتی ہیں فون بھی ہوتے ہیں اور سفارت کاری بھی ہوتی ہے۔اسی طرح سے ترکی والوں کے اسلام کے بارے میں کیا خیال ہے جو امریکی صدر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا کیپیٹل بنانے کے اعلان پر جب ساری دنیا احتجاج کر رہی تھی تو ترکی نے او آئی سی کا اجلاس استنبول میں بلایا۔مگر استنبول ہی میں واقع اسرائیلی ایمبیسی بند کرنا تو درکنار اس اجلاس سے ایک ہفتہ قبل اسرائیل ترکی سے کئی ملینز کی بسیں خریدنے کا معاہدہ کر رہا تھا ۔جبکہ دوسری طرف سعودی عرب سے نہ ہی بادشاہ اور نہ ہی ولی عہد یا وزیر خارجہ شامل ہوئے بلکہ ایک معمولی رینک کے افسر کے ذریعہ نمائیند گی کی گئی۔
اور پھر میری سرکار والی حرمین شریفین اور ان کی حکومت کے بارے میں کیا اسلامی فتویٰ ہے جنہوں نے توحال ہی میں اپنی فضائی حدود کو اسرائیل کے لئے کھول دیا ہے جو کہ اس سے قبل بند تھیں ۔اس سے پیشتر سعودی عرب کے ولی عہد ،محمد بن سلیمان نے 2 اپریل 2018 کو دبے لفظوں میں اسرئیل کو بحیثیت ایک ریاست تسلیم کرتے ہوئے ’’ دی اٹلاٹنک ‘‘ کے چیف ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اسرائیل کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں امن کے ساتھ رہیں ‘‘ ۔گواگلے روز بادشاہ سلیمان کی طرف سے کچھ وضاحت کی گئی مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ سعودی عرب نے فلسطین کی حمائیت سے ہاتھ اُٹھا کر اپنا جھکائو اسرائیل کی طرف کر دیا ہے ۔
پھر جناب عالی مقام عمان کی مسلمان رعایا اور ان کی بادشاہت کے بارے میں آپ کا پھرتیلا ایمان کیا فیصلہ دیتا ہے جو یہودی وزیر اعظم کو اپنے ملک کے دورے کروارہے ہیں دارلعلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ ’’ دیوبند آن لائن ‘‘ پر 7 نومبر 2018 کو یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ’’ اکتوبر 2018 کو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کےوزیراعظم ،بنجامن نیتن یاہو ،سلطنت عمان کے سلطان قابوس بن سعید کی دعوت پر عمان کا دورہ کرکے اپنی سیاسی طاقت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کا ہیرو اور مسیحا بن گیا ۔نیتن یاہو کے اس دورے میں اس کی اہلیہ،اسرائیل کی جاسوسی ایجنسی موساد کا ڈائریکٹر ،وزارت امور خارجہ و قومی دفاعی کونسل کے اعلیٰ ذمہ داران اور فوج کے سیکرٹری وغیرہ بھی شامل تھے۔۔۔صیہونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی عمان میں ضیافت کے اگلے دن 27 اکتوبر کو عمان نے کھلے طور پر یہ بیان دیا کہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی ایک ریاست کے طور پر قبول کرنے کا وقت آگیا ہے۔
پھر سرکار لگتے ہاتھوں بحرین کے مسلمانوں اور ان کی سلطنت پر بھی دو حرف ہو جائیں ۔ بحرین میں سیکورٹی کانفرنس کے دوران عمانی وزیر خارجہ جناب یوسف بن علاوی بن عبد اللہ نے کہا کہ ’’ ہم سب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اسرائیل ایک ریاست ہے جو ہمارے خطہ میں واقع ہیں ‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ دنیا بھی اس بات سے واقف ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو دوسرے ممالک کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے ۔ ‘‘ بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ نے عمانی مئوقف کی تائید کی ۔ اس کانفرنس میں سعودی عرب،بحرین،امریکہ،اٹلی،اور جرمنی کے نمائیندوں نے شرکت کی۔
پھر لگتے ہاتھوں متحدہ عرب امارات کے بارے میں بھی ایمانی حرارت کا اظہار کردیا جائے جنہوں اسرائیل کی متنازعہ ترین وزیر کو ابھی ابھی ضیافت کے مزے اُڑائے اور پھر اپنی جوڈو ٹیم کے ساتھ اسرائیل کا جھنڈا بھی مسلمانوں کے دیس میں اور مسلمان کھلاڑیوں کے درمیان لہرایا۔
’’عرب اور مسلمانوں کے خلاف متنازع بیان دے کر سرخیوں میں رہنے والی اسرائیل کی وزیر ثقافت اور کھیل ’’ میری رگیو‘‘ نے اپنی اسرئیلی جوڈو ٹیم کا مقابلہ دیکھنے کے لئے متحدہ عرب امارات ( یواے ای) کا دورہ کیا ،جہاں پر اس کا پرجوش استقبال کیا گیا۔اور اس نے ذمہ داروں سے بھی ملاقات کی ۔ اس سفر کے دوران یواے ای کے عہدیداروں نے 29 اکتوبر 2018 کو وزیر موصوفہ کو ابو ظہبی کی مشہور ’’ شیخ زائد مسجد‘‘ کا دورہ بھی کرایا ۔یہ بات بھی نوٹ کئے جانے کے قابل ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیلی جوڈو ٹیم نے کسی خلیجی عرب ملک میں اپنے قومی جھنڈے کے ساتھ کھیل میں حصہ لیا۔
پھر چلتے چلتے دبئی کے بارے میں بھی کچھ اظہار ہوجائے۔ کیا خیال ہے وہ تو اب ہمارا دوسرا وطن ہے ہم مسلمانوں کی ساری جائیدادیں وہیں ہیں انہوں نے اسرئیلی کمیونیکیشن منسٹر کو سرکاری دورہ کروایا اور دعوتوں کے مزے دئیے۔، اسرائیل کے کمیونیکیشن منسٹر ایوب کارا نے 30اکتوبر کو دوبئی کا دورہ کیا ۔ انھوں نے دبئی میں ٹیلی کمیونیکیشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ’’ امن اور تحفظ ‘‘ کے موضوع پر بات کی ۔ سرکار مولانا عبید اللہ سندھی صاحب کے پوتے جناب مولانا اجمل قادری صاحب کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو اسرائیل کے دورے کرتے اور بڑے فخر سےیہودیوں کو تحفے عنائت کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر ایلی اَوِیدار صاحب جو قطر میں اسرائیلی تجارتی مشن کے سربراہ رہے۔ فلاڈلفیا میں وائس کونسلر اور ہانگ کانگ میں اسرائیل کے سفیر رہ چکے ہیں ۔ آپ کچھ عر صہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے شعبہ بین المذاہب ( انٹر فیتھ ڈیپارٹمنٹ ) کے سربراہ کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ آپ کے ذمہ خصوصی طورپر ان مسلم اکثریتی ممالک سے عوامی اور غیر رسمی روابط استوارکرنا تھا جن کے ساتھ اسرائیل کے دوطرفہ سفارتی تعلقات قائم نہیں۔ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔وزارت خارجہ سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے اپنی ایک کتاب
The Abyss: Bridging the divide between Israel and the Arab World کے چھٹے باب میں ایک ذیلی عنوان ’’ مولانا قادری کا سوٹ ‘‘ کے تحت اسرائیل کا دورہ کرنے والے ایک پاکستانی وفد کا حال بیان کیا ہے جس کی میز بانی کا کام اسرائیلی حکومت کی طرف سے انہیں تفویض کیا گیا تھا۔اور لکھا کہ دورہ کے آخری دن جب ہم ائر پورٹ کے لئے روانہ ہونے لگے تو قادری نےکچھ سوچ کر ایک دم اپنا سوٹ کیس کھولا اور اپنے کپڑوں میں سے ایک جوڑا جو میڈان پاکستان تھا نکال کر یہ کہتے ہوئے مجھے دیا کہ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کوئی تحفہ نہیں ۔ تم یہ جوڑا میری طرف سے شکریہ کی ایک علامت سمجھ کر رکھ لو۔ کیونکہ جس طرح سے تم نے میرا خیال رکھا ہے میں تمہیں اپنا سگا بھائی سمجھتا ہوں ۔ آپ نے اپنے دورہ اسرائیل 2005 کے بارے میں کویتی نیوز ایجنسی ’’ وکا لۃالانباء الکویتیہ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس دورہ پر ان کے ساتھ ریٹائرڈجنرلز، بیوروکریٹس، بینکرز، صنعتکار، تاجر اور مذہبی عمائدین بھی براستہ قاہرہ پاکستان سے تل ابیب پہنچے ہیں۔ ( یہ تمام معلومات نیا زمانہ ڈاٹ کام ویب سائٹ پر 5 جنوری 2018 سے دستیاب ہیں )
سرکار عالی مقام ہم گنہگاروں کی بریلوی علماء و مشائخ کے بارے میں بھی راہنمائی فرمائیں جو اسرئیلی دعوتیں کھاتے اور اسرئیلیوں کو اپنے چچا زاد بھائی بتاتے ہیں۔ پیر خواجہ افضل نظامی صاحب جو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی کی اولاد میں سے ہیں اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے روحانی سربراہ ہیں۔ آپ 2007 میں ایک وفد میں شامل ہو کر اسرائیل گئے تھے جہاں پہنچ کر آپنے فرمایا کہ وہ خود کو اپنے چچیروں کے درمیان پاکر بہت ہی طمانیت اور فرحت محسوس کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ اسرائیل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہو گی لیکن صورتحال اس کے برعکس پاکر اب میری رائے تبدیل ہو چکی ہے۔ پیر خواجہ افضل نظامی کی ہمرکابی میں آستانہ عالیہ خواجہ معین الدین چشتی ( المعروف خواجہ غریب نواز ) اجمیر کے سجادہ نشین خواجہ زین العابدین بھی اس وفد میں شامل تھے۔ اسرائیل کا دورہ کرنے والے اس بھارتی مسلم وفد کی سربراہی مولانا عمیر احمد الیاسی صاحب تبلیغی جماعت والے کر رہے تھے۔ جو آل انڈیا آئمہ مساجد ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ یہ تنظیم بھارت کے پچاس لاکھ آئمہ کرام کی واحد تنظیم ہے۔وفد کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر خواجہ افتخار حمد بھی شامل تھے جو بین المذاہب فائونڈیشن کے صدر ہیں۔ آپ 2006 میں بھی اسرائیل کے دورے پر تشریف لے جا چکے ہیں۔ اور اسی طرح 2007 اور 2011 میں بھارتی مسلمانوں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ اسرائیل گئے۔ محترم اختر الواسع بھی مذکورہ وفد کے اہم رکن تھے ۔ آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ شعبہ اسلامک سٹڈی ہیں۔ایک اور نام جناب محمود الرحمٰن صاحب جو سابق وائس چانسلرعلی گڑھ یونیورسٹی ہیں ۔ آپ بھی اس وفد میں شامل تھے۔مولانا عمیر الیاسی صاحب سے جب ایک اسرائیلی صحافی نے سوال کیا کہ وہ مسلمان ہونے کے ناطے اپنے دورہ اسرائیل کے تناظر میں فلسطینی ایشو کو کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ فلطینیوں کا ہر مسئلہ اسلام کا بھی مسئلہ ہو بعض غیر جمہوری عناصر مذہب کے نام پر یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔مولانا الیاسی نے اسرائیل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جمہوری سیاسی اقدار کی رو سے اسرائیل کو مان لینا چاہئے۔مذہبی وجوہ پر کسی ملک کو تسلیم نہ کرنا مناسب فعل نہیں ۔ اس دورہ کے بعد اگلے سال 2008 میں مولانا جمیل الیاسی صاحب بھی اسرائیل تشریف لے گئے جہاں آپ نے اسرائیلی صدر شمعون پیریز سے ان کی سرکاری رہائش گا ہ میں ملاقات کی اور انہیں اعزازی خلعت پہنائی۔ان دنوں مولانا آئمہ مساجد تنظیم کے سیکرٹری جنرل تھے۔مولانا موصوف نے بتایا کہ وہ اسرائیل پہنچنے کے بعد یہ جان کر حیران ہو گئے ہیں اسرائیلی حکومت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتی ہے۔ اور اسرائیل میں اسلامی شرعی عدالتیں تک موجود ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے وفود کے دورہ جات اسرائیل کا یہ سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر توقیر احمد 2013 والے مسلم وفد کا حصہ تھے۔2010 میں اسرائیلی سفیر نے درگاہ اجمیر پہ حاضری دی ، پھول چڑھائے اور دعاکی۔ انڈیا میں انڈو اسرائیل سوسائٹی قائم ہے جس کے سربراہ جناب آصف اقبال صاحب ہیں ۔ اسرائیلی سفارت خانے میں افطار پارٹیاں منعقد کرنے کی روائیت انہی نے شروع کی۔ ( یہ تمام معلومات نیا زمانہ ڈاٹ کام پر 25 دسمبر2017 کے پیج پر دستیاب ہیں)
اوریا مقبول جان صاحب جب آپ یوٹیوب کے اسلامی ٹھیلے پر بیٹھے ریوڑیوں کی طرح ایمان بانٹ رہے تھے عین اسی وقت جناب وسعت اللہ خان صاحب آپ کے آرام دہ یورپین کانٹ شانٹ کے بنےڈرائینگ روم میں بیٹھے بڑ بڑا رہے تھے اور آپ سے کچھ پوچھ رہے تھے’’ اپنی چھپن سالہ زندگی میں تین نعرے مسلسل میرا پیچھا کررہے ہیں اور شائد تا زندگی کرتے رہیں گے۔ اول یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو۔ اس نعرے کے پیچھے غالباً فلطینیوں سے اظہار یک جہتی کا جذبہ کا فرما ہے۔۔مگر یہودی مصنوعات سے کیا مراد ہے یہ آج تک پلے نہیں پڑا۔۔۔اگر مراد ان کمپنیوں سے ہیں جن کے مالکان یا منتظم یا کارکن یہودی ہیں تو پھر تو گھر میں صرف چادر تکیہ اور چارپائی ہی بچے گی۔کیونکہ فریج،واشنگ مشین، فرنیچر،کپڑے، بیڈنگ،پلاسٹک کے برتن،بچوں کا دودھ،کارن فلیکس،بریڈ،مرتبان،درسی و غیر درسی کتابیں،قلم ،پنسل،عینک،گھڑی،جوتا،کموڈ، انڈروئیر،مشروب،مسلم شاور،طبی آلات،لیبارٹرکاسامان،کار ،ٹرک، بلڈوزر،لائوڈسپیکر،دھرنے کے کام آنے والا کنٹینر،غرض روزمرہ استعمال کی کسی بھی ہلکی بھاری، مہنگی سستی شے کا شجرہ نکال لیجئے۔ موجد، کمپنی،ڈسٹری بیوٹر، سپلائر، کنٹریکٹر کوئی نہ کوئی یہودی ضرور ہوگا۔ ۔آٹھ سالہ عراق ایران جنگ کے دوران لاکھوں ایرانی رضا کاروں کو محاذ پر جانے سے پہلے پلاسٹک کی سرخ بہشتی چابیاں بانٹی جاتی تھیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان چابیوں کو بنانے کا ٹھیکہ جس کمپنی کو دیا گیا وہ ایک اسرائیلی کمپنی کی سب سیڈری تھی۔البتہ ان اشیاء کا بائیکاٹ کسی حد تک قابل عمل ہے جن پر میڈ ان اسرائیل لکھا ہو لیکن اسرائیلی کمپنیاں بہت سی اشیاء غرب اردن میں فلسطینی سب کنٹریکٹرز اور کارکنوں سے بھی تیا ر کرواتی ہیں۔لہذا بائیکاٹ سے قبل یہ چھان بین ضروری ہے کہ کہیں جوش میں فلسطینی روزگار بھی لپیٹ میں نہ آجائے‘‘ (بی بی سی ویب ساٹ صحافی جناب وسعت اللہ خان صاحب 2018/04/14 زیر عنوان یہودی اشیاء، فحاشی اور گبر سنگھ )
اگر آپ میں اخلاقی جرات ہے تو ان تمام مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کے بارے میں کچھ لب کشائی ہو جائے یا صرف آپ زبان کی تیزیاں صرف جماعت احمدیہ کے لئے ہیں۔

نوٹ: کسی بھی کالم نگار کے کالم سے متفق ہونا ادارے کیلئے ضروری نہیں ہے.