چناب نگر(غدیر احمد بھٹی سے) ترجمان جماعت احمدیہ سلیم الدین نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

پاکستانی احمدی ایک طویل عرصہ سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ 2018 میں بھی احمدی کمیونٹی بنیادی حقوق سے محروم رہے.

انہوں نے کہا کہ:

گزشتہ برس احمدیوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی اور متعصبانہ سلوک میں شدت محسوس کی گئی۔ نفرت انگیز مہم عروج پر رہی۔ جب کہ انتخابات میں صرف احمدیوں کے لیے الگ ووٹر لسٹ بنا کر احمدیوں کو مرکزی سیاسی دھارے سے الگ کر دیا گیا جو کہ جمہوریت کے بنیادی اصول اور مخلوط طرز انتخاب کی روح کے خلاف ہے.

ترجمان نے مزید کہا کہ:

احمدیوں کو پاکستان میں مذہبی آزادی حاصل نہیں اور آئے روز حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان میں احمدیوں کے لیے معمول کی زندگی گزارنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔احمدیوں کو تبلیغ پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی فرائض کی بجاآوری میں بھی دشواری کا سامنا ہے اور انہیں مسلسل بے جا مقدمات میں گھسیٹا جا رہا ہے.

ترجمان جماعت احمدیہ نے کہا کہ:

قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نادرا کے مجوزہ فارم میں کالم نمبر 20 میں شہری اپنا مذہب بیان کرتا ہے جو فرد اپنا مذہب اسلام بیان کرتا ہے، اسے آئین پاکستان میں دی گئی ’’مسلم‘‘ کی تعریف پر مبنی بیان حلفی پر دستخط کرنا پڑتے ہیں۔ سرکاری ملازمین سے بھی اسی طرح حلف لیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم؟ مذہب کے مقدس نام پر پاکستانیوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے جس سے صرف امتیازی اور متعصبانہ رویوں کو فروغ مل رہا ہے۔
ترجمان جماعت احمدیہ سلیم الدین نے پاکستان کے طول وعرض میں احمدیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیز مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسند عناصر کے علاوہ حکومتی ادارے بھی احمدیوں کے متعلق پر تشدد نظریات کے پھیلاؤ میں مصروف ہیں.

انہوں نے کہا کہ:

ملک کے مختلف حصوں میں پڑھائے جانے والے تعلیمی نصاب میں بھی احمدیوں کے خلاف نفرت و تشدد کی تعلیم دی جا رہی ہے جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ہم آہنگی اور رواداری پر مبنی نصاب تشکیل دے رہی ہے.

جماعت احمدیہ کے ترجمان نے کہا کہ:

قومی ایکشن پلان میں یہ واضح ایجنڈا دیا گیا تھا کہ نفرت انگیز تحریر و تقریر کے خلا ف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ تاہم، پاکستان بھر میں احمدیوں کے خلاف کھل عام نفرت کی ترغیب دی جاتی ہے۔ حکومتی ادارے اس ضمن میں مکمل طور پر چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں۔
ترجمان جماعت احمدیہ نے پاکستان کے اردو ذرائع ابلاغ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے دوران 2389 بے بنیاد اور جھوٹی خبریں اور 300 مخالفانہ مضامین یکطرفہ طور پر شائع کیے گئے اور کسی ایک موقع پر بھی ہمارا موَقف لینے کے لیے رابطہ نہیں کیا گیا جو کہ صحافت کے بنیادی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے.

ترجمان جماعت احمدیہ نے احمدیوں کے خلاف امتیازی قوانین کو ختم کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے اور پاکستان کے انصاف پسند حلقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احمدیوں اور دوسری برادریوں کے مذہبی بنیادوں پر انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کریں کیوں کہ یکساں اور مساوی حقوق ہر شہری کا حق ہیں اور ان حقوق کو نظر انداز کرنے کی بنا پر وطن عزیز میں آج نفرت اور تشدد کو فروغ مل رہا ہے۔
جماعت احمدیہ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق، 1984 میں احمدیوں کے خلاف قوانین کی تشکیل کے بعد سے اب تک 262 احمدی عقیدے کی بنا پر قتل جب کہ 388 پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران 28 احمدی عبادت گاہوں کو مسمار کیے جانے کے علاوہ انتظامیہ نے 39 احمدی عبادت گاہوں کو سربمہر کیا۔ اسی طرح 23 احمدی عبادت گاہوں کو ہجوم نے نذر آتش کیا یا پھر توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے مطابق، 17 احمدی عبادت گاہوں پر زبردستی قبضہ کیا گیا جب کہ انتظامیہ نے 58 عبادت گاہیں تعمیر نہیں ہونے دی۔ وفات پا جانے والے احمدی شہریوں کی قبرکشائی کے 39 واقعات پیش آئے۔ 69 مواقع پر احمدیوں کی مشترکہ قبرستان میں تدفین روکی گئی۔ 43 ایسے واقعات ہوئے جب احمدیوں کے گھروں اور دکانوں سے کلمہ ہٹایا گیا جب کہ احمدی عبادت گاہوں سے 103 بار کلمہ ہٹایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، 1984 سے 2018 تک احمدی برادری کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے جن کی مجموعی تعداد 4174 ہے۔