راولاکوٹ (ربوہ ٹائمز) کشمیر سے آنے والے درجن بھر مرد اور خواتین انڈین ریاست اترپردیش کے شہر آگرہ کی سینٹرل جیل کے مرکزی دروازے کے باہر ایک بڑے ویٹنگ روم میں موجود تھے۔
گرمی اور حبس سے ان کا برا حال تھا مگر وہ اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور اس جیل میں قید اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے منتظر تھے۔
یہ وہ قیدی ہیں جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی آئینی شق کے خاتمے کے بعد حراست میں لیے گئے اور پھر ریاست سے باہر مختلف جیلوں میں قید کر دیا گیا۔
آگرہ کی سخت سکیورٹی والی سینٹرل جیل میں 80 سے زائد کشمیری افراد کو رکھا گیا ہے تاہم جیل کے حکام اس موضوع پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ویٹنگ روم میں خواتین اور مردوں کے لیے قائم ٹائلٹ سے آنے والی بدبو کی وجہ سے وہاں بیٹھ کر انتظار کرنا آسان کام نہیں تھا۔
اپنی قمیض سے پسینہ پونچھتے ہوئے ایک داڑھی والے شخص نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ’بہت گرمی ہے، میں یہاں مر جاؤں گا۔‘
انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’میں گزارش کرتا ہوں کہ آپ مجھ سے میرا نام نہ پوچھیے، ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔‘
وہ سرینگر سے 30 کلومیٹر دور پلوامہ کے رہائشی ہیں اور اپنے بھائی سے ملنے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کو چار اگست کو رات گئے اٹھا لیا گیا تھا۔
’سکیورٹی اہلکار دو سے تین گاڑیوں میں آئے تھے۔ انھوں نے بتایا نہیں کہ میرے بھائی کو کہاں لے جا رہے ہیں۔‘
اس شخص نے یہ بھی کہا کہ ’مجھے نہیں پتہ میرے بھائی کو حراست میں کیوں لیا گیا۔ ان کا پتھراؤ کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ تو ایک ڈرائیور ہیں۔‘
اس واقعے کے ایک دن بعد، یعنی پانچ اگست کو جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔
پلوامہ کے رہائشی ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ ’ہم اہلکاروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے، انھوں نے ہی بتایا کہ اسے سرینگر لے جایا گیا ہے۔ کافی کوششوں کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اسے یہاں، آگرہ لایا گیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہم 28 اگست کو آگرہ آئے۔ ہمیں پلوامہ کے مقامی سینیئر پولیس اہلکار سے ایک تصدیقی خط لے کر آنے کو کہا گیا۔ ہم وہ خط لانے کے لیے پلوامہ گئے۔ ہمیں ہزاروں روپے بھی خرچ کرنے پڑے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کا بھائی 28 برس کا ہے۔ اس نے آرٹس اور ایجوکیشن میں بی اے اور ایم اے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب اس کی تمام ڈگریاں بیکار ہے کیوں کہ وہ تو جیل میں ہے۔‘
آگرہ کی ہی جیل میں بند ایک کاروباری شخص کا خاندان سرینگر سے آیا ہے۔ ان کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اکیلے رہنا چاہتے ہیں۔
اس شخص کی اہلیہ نے ایک سفید دوپٹے سے اپنا سر ڈھکا ہوا تھا۔ وہ اپنے روتے ہوئے بچے کو مسلسل چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ ویٹنگ روم سے باہر نکلیں اور باہر رکھے ہوئے ایک گھڑے سے بچے کی بوتل میں پانی بھرا۔
ان کے ساتھ نوجوان بچے بھی تھے جن کی آنکھوں میں سینکڑوں سوال تھے۔
وادی کشمیر کے علاقے کلگام کے رہائشی ایک مزدور عبدالغنی ریل گاڑی سے دلی تک آئے اور وہاں سے بس کے ذریعہ آگرہ تک پہنچے۔
ان کا بیٹا اور بھتیجا جیل میں بند ہیں۔ وہ پریشان تھے کیوں کہ وہ کشمیر کے اہلکاروں سے اہم دستاویزات اپنے ساتھ نہیں لے کر آئے۔
آگرہ تک کے سفر میں ان کے دس ہزار روپے خرچ ہو گئے۔ ایک بار پھر کلگام تک جانے اور واپس آنے میں ان کے مزید بہت پیسے خرچ ہو جائیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ ’مجھے نہیں پتا تھا کہ تصدیقی خط ساتھ لے جانا ہے۔ ان لوگوں کو رات گئے دو بجے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس وقت وہ سو رہے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ انھیں کیوں حراست میں لیا گیا ہے۔ انھوں نے تو کبھی بھی سکیورٹی اہلکاروں پر پتھر نہیں پھینکے۔‘
چند گھنٹے گزر جانے کے بعد گیٹ کے اندر جانے کا وقت آیا۔
اہلکاروں نے عبدالغنی کی التجا سن لی اور آدھار کارڈ دکھانے کے بعد انھیں اندر جانے کی اجازت مل گئی۔
جیل کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’ہم جتنا کر سکتے ہیں اتنا تعاون کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر آپ اپنا آدھار کارڈ دکھاتے ہیں تو آپ اندر جا کر اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کر سکتے ہیں۔‘
ایک گھنٹے بعد عبدالغنی اپنے بیٹے اور بھتیجے سے آدھے گھنٹے کی ملاقات کر سکے۔ ملاقات کے بعد وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔
انھوں نے بتایا کہ ’میرا بیٹا بہت فکرمند ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ گھر پر سب خیریت ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں اس کی بہت فکر لگی ہوئی تھی کہ وہ کہاں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں آج اس سے مل سکا۔ میں چند روز بعد پھر واپس آؤں گا۔‘
شام کے قریب چار بج گئے تھے اور ویٹنگ روم خالی ہو چکا تھا۔ تبھی ہم نے دیکھا کہ ایک خاتون اور ایک مرد تیزی سے گیٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وہ بارہ مولہ کے رہائشی تھے۔ وہ سرینگر سے دلی ہوائی جہاز سے اور دلی سے آگرہ ٹیکسی کے ذریعے پہنچے تھے۔
جیل کے انتظامیہ سے گزارش کرنے پر انھیں ان کے رشتہ دار سے ملاقات کے لیے بیس منٹ کا وقت دیا گیا۔
طارق احمد ڈار کے بھائی جیل میں بند ہیں جن کے تین بچے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جیل کے اہلکاروں نے ہمیں پہلے آنے کے لیے کہا تھا، ہم جلدی پہنچ جاتے تو ہمیں ملنے کے لیے چالیس منٹ کا وقت مل سکتا تھا۔‘
جیل کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ملاقات کے لیے منگل اور جمعہ کے دن مقرر کیے گئے ہیں۔
طارق نے بھائی سے ملاقات کے بارے میں بتایا کہ ’میں نے اس سے بات کی۔ اس کی اہلیہ، تین بچے اور بزرگ والدین اسے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اب میں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ اب میں انھیں بتا سکتا ہوں کہ وہ ٹھیک ہے۔‘