اسلام آباد (ربوہ ٹائمز)پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ماتحت عدالتوں سے توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے شخص وجیہہ الحسن کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا ہے۔
وجییہ الحسن ان دنوں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں۔
عدلیہ کی حالیہ تاریخ میں یہ دوسرا واقعہ ہے کہ کسی شخص کو توہین مذہب کے مقدمے میں بری کیا گیا ہو۔ اس سے قبل اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بھی ایسے ہی مقدمے میں ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی پر بری کیا تھا۔
وجیہہ الحسن کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ سنہ 1999 میں لاہور کے تھانے اقبال ٹاؤن میں درج کیا گیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اُنھوں نے اسمٰعیل قریشی نامی ایک وکیل کو پیغمبر اسلام کے خلاف باتوں پر مبنی خطوط لکھے تھے۔
سنہ 2002 میں لاہور کی سیشن عدالت نے وجیہہ الحسن کو سزائے موت سنائی تھی اور اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو 8 سال کے بعد 2010 میں لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وجیہہ الحسن کی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کی پہلی مرتبہ سماعت سنہ 2015 میں ہوئی۔
بدھ کے روز اس اپیل کی سماعت اسلام آباد میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی جبکہ وکلا نے لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اس اپیل کے حق اور مخالفت میں دلائل دیے۔
وجیہہ الحسن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کو ایک سازش کے تحت اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے جبکہ مقدمے کے مدعی کو خط اُن کے مؤکل نے نہیں بلکہ حسن مرشد مسیح نامی شخص نے لکھے تھے۔
وکیلِ دفاع نے کہا کہ ان کے مؤکل کو ایسے جرم میں سزا سنائی گئی ہے جو اس اس سرزد ہی نہیں ہوا۔
مدعی مقدمے کے وکیل امجد رفیق نے اس اپیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مجرم وجیہہ الحسن ہی خود کو حسن مرشد مسیح ظاہر کرکے ان کے مؤکل کو خطوط لکھتا تھا۔
مدعی کے وکیل نے کہا کہ جب ملزم کی طرف سے پیغمبر اسلام کی توہین کا سلسلہ بند نہ ہوا تو اس کے بعد ان کے موکل نے تھانے میں وجیہہ الحسن کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔
واضح رہے کہ مدعی مقدمہ نے اس ضمن میں وفاقی شرعی عدالت سے بھی فیصلہ لے رکھا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب یا پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت ہے۔
مدعی کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل کو جو خطوط لکھے گئے تھے، انھیں تحریر کرنے کا اعتراف وجیہہ الحسن نے دو افراد کی موجودگی میں بھی کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں ملزم کی تحریر کا نمونہ لیا گیا تھا جس کا خطوط کی تحریر سے موازنہ کر کے ایک ماہرِ لکھائی نے تصدیق کی کہ یہ لکھائی ایک جیسی ہی ہے۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماہرِ لکھائی کے مطابق غالب امکان ہے کہ ملزم کی تحریر اس خط سے مشابہت رکھتی ہے مگر اس بارے میں اُنھوں نے کوئی حتمی رائے نہیں دی۔
عدالت نے کہا کہ آسیہ بی بی کے مقدمے میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ توہین مذہب کی سزا موت ہے لیکن اس کو ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں کی طرف سے وجیہہ الحسن کو دی گئی موت کی سزا کو کالعدم قرار دے کر ان بری کرنے کا حکم دیا۔