چناب نگر( غدیر احمد بھٹی سے ) گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ تعلیم الاسلام کالج چناب نگر میں پروفیسر محمد آصف کی ریٹائرمنٹ پر ایک پروقار الوداعی پارٹی دی گئی۔پرنسپل سید ضیاء الحسنین شاہ نے پروفیسر محمد آصف کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سراہا اور ان کو تعریفی سند سے نوازا۔ بعدازاں میڈیا انچارج پروفیسر وقار حسین نے پروفیسر محمد آصف کا تفصیلی انٹرویو کیا اور پتہ چلا کہ محمد آصف نے نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ رفاعی کاموں میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ا نہوں نے سماجی خدمت کے سلسلہ میں سرگودھا میں 1994 میں “انفاق ویلفیر سوساٹی” قایم کی جس کا مقصد عوام کو بلا سود قرضوں کی فراہمی اور یتیم بچوں کی فیس کی ادایگی وغیرہ تھا ۔ چناں چہ ان کی سماجی خدمت کو سامنے رکھ کر پنجاب کی سابق وزیر براءے سماجی بہبود محترمہ شاہین عتیق الرحمن نے انہیں تعریفی سند سے نوازا ۔ پروفیسر محمد آصف نے بتایا کہ دوران سروس انہوں نے دو کتابیں بھی لکھیں ۔ایک کتاب کا نام ھے ۔” غلام احمد پرویز نے تاریخ پاکستان کو مسخ کر دیا ” اور دوسری کتاب کا نام ھے ” ربانی ازم ” جس میں انہوں نے ثابت کیا ھے کہ قرآن کا معاشی نظام اپنی الوہیاتی تعلیمات کی بنا پر کیپٹلزم ‘ سوشلزم ‘ کمیونزم اور سوشل ڈیموکریسی سے بہتر نظام ھے ۔پروفیسر محمد آصف نے 2مءی 1997 کو بلا سود کمیشن کے چیرمین راجہ محمد ظفر الحق کو بلا سودی معیشت بارے تجاویز لکھ کر بھیحیں ۔ 7 جنوری 2019 کو پروفیسر محمد آصف نے ربا اور ربوا سے متعلق اپنا موقف فیڈرل شریعت کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا۔ پروفیسر محمد آصف 34 سال شماریات کا مضمون مختلف کالجوں میں پڑھاتے رھے جن میں گورنمنٹ کالج لالہ موسی ، گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات ، گورنمنٹ کالج جھنگ ، گورنمنٹ کالج سرگودھا ، یونیورسٹی آف سرگودھا شامل اور کالج ہذا شامل ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ہمارا نظام تعلیم "بینکنگ سٹائل آف ایجوکیشن ” طرز کا ھے جس میں اساتذہ طلباء کے ذہن میں اپنا علم انڈیلتے ہیں انہیں تخلیق کے قابل نہیں بناتے ۔اس طرح رٹا بازی کے نتیجہ میں جہالت جیت جاتی ھے اور علم ہار جاتا ھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے تین جنگیں لڑیں، پھر دس سال افغانستان میں روسی افواج کے خلاف اور پھر دس سال . دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک رھے ۔ اور یوں ھمارا تعلیمی نظام ایجارات و اختراعات سے محروم ھو گیا اور ہم ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں کے غلام ھو گۓ ۔ مزید یہ کہ ان جنگوں اور پھر حکمرانوں کی کرپشن نے تعلیم، علاج ، رہاۂش وغیرہ کو اتنا مہنگا کر دیا کہ اب ہر پاکستانی کولہو کے بیل کی طرح دن رات کمائ میں لگا ہوا ھے اور خرچے ہیں کہ پورے نہیں ہوتے ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ آج ہمارے سائنسدان، شاعر، ادیب اور فائن ارٹ کے لوگ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں کر پا رھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی وجہplagiarism ھے جو ھر شعبہ میں سرایت کرچکی ھے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ہم کیسے اب ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں ؟ تو انہوں کہا کہ اس کے دس طریقے ہیں ۔ ١۔ ملک سے جاگیردرانہ نظام کا خاتمہ ٢۔ غیر ملکی سرمایہ کاری ٣۔ تعلیم پر سرمایہ کاری ۴۔ ملک کے لوٹے ہوے مال کی واپسی ۵۔ منی لانڈرنگ کی روک تھام ٦۔ سیاسی نظام کی اصلاح تاکہ ایک بھی کرپٹ شخص قومی اسمبلی میں نہ آ سکے ۔ ۷۔ یکساں نظام تعلیم ٨۔ انصاف کی تیز فراہمی ٩۔ میگا کرپشن کے حامل شخص کو سزاءے موت ١٠۔ ٹیکس کی وصولی وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے بتایا کہ میں اس وقت لاھور سے ایم فل کر رھا ھوں اس لیے کہ یہ سفر الی اللہ ھے۔