واشنگٹن (ربوہ ٹائمز) 79چک نواں کوٹ ضلع شیخوپورہ: یہاں مذہبی انتہاپسندوں اور پولیس نے 30؍جون 2020ء کی رات کو احمدیوں کی قبروں کے کتبے توڑ دیے۔
اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اس گاؤں میں احمدیوں کا قبرستان غیراحمدیوں کے قبرستان کے ساتھ مشترکہ ہے۔ چنانچہ احمدیوں نے اپنے قبرستان کے ایک مختصر حصہ میں جنازہ گاہ بنانے کی غرض سے فرش بنانے کا ارادہ کیا اور ابھی اس مقصد کے لیے کچھ ہی اینٹیں منگوائی تھیں کہ شر پسند عناصر نے علاقہ میں جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ احمدی اپنی مسجد بنانے جارہے ہیں۔ چنانچہ ان عناصر کی جانب سے ایس ایچ او اور ڈی پی او کو بھی احمدیوں کے خلاف ایک درخواست بھجوائی گئی جس میں ذکر کیا کہ احمدیوں کےاقدام کی وجہ سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور اس وجہ سے علاقہ میں نقضِ امن کا اندیشہ ہے۔
ایس ایچ او نے احمدیوں اور شر پسند عناصر کو 27؍جون کو بلایا۔ اس موقعے پر ساٹھ کے قریب ملاں جمع ہوئے اور احمدیوں کا بھی ایک مختصر وفد شامل ہوا۔ اس ملاقات میں جب ایک احمدی نے ’’السلام علیکم ‘‘کہا تو ملاؤں کی جانب سے شور مچایا گیا کہ انہوں نے اسلامی شعائر کا استعمال کیا ہے لہٰذا ان کے خلاف توہین رسالت کے قانون کے تحت 295.Cکا مقدمہ درج کیا جائے۔ اس پر ایس ایچ او نے کہا کہ جو درخواست دی ہے اس پر ہی بات کی جائے۔
مخالف ملاؤں نے اس ملاقات میں مزید کہا کہ احمدیوں کے جنازہ گاہ بنانے کے اقدام نیز ان کی قبروں کے کتبوں پر لکھے اسلامی دعائیہ کلمات سے ان ملاؤں کی دل آزاری ہوئی ہے لہٰذا ان کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے۔
ایس ایچ او نے اشٹام پیپر پر احمدیوں سے تحریراً وعدہ لیا کہ وہ جنازہ گاہ تعمیر نہ کریں گے۔ احمدیوں نے لکھا کہ وہ کتبوں پر لکھے اسلامی کلمات نہیں مٹائیں گے۔ پولیس اگر چاہے تو رنگ پھیردے۔
ملاؤں کی جانب سے گاؤں کے غیر احمدی گھروں میں جا کر اس بات کا وعدہ لیا گیا کہ وہ احمدیوں کو قبرستان میں تدفین بھی نہ کرنے دیں گے اس پر بعض لوگوں نے دستخط کردیے تاہم بعض نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ اس گاؤں میں غیر احمدیوں کی پانچ مساجد ہیں۔ ان مساجد میں سے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کرنے اور نفرت آمیز اعلانات بھی ہوتےرہے۔
مورخہ 30؍جون 2020ء کو ملاں پولیس اسٹیشن جمع ہوئے اور جماعت کے خلاف نعرہ بازی کی اور پھر اس کے بعد پولیس اور ملاؤں نے کتبوں پر لکھے اسلامی دعائیہ کلمات ہتھوڑوں اور چھینیوں سے مٹانے شروع کر دیے اور ایسا رات کے11بجے تک ہوتا رہا۔
بی بی سی اردو کی جانب سے جب مذکورہ ایس ایچ او سے رابطہ کیا گیا اور اس واقعہ کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے سرے سے ہی اس واقعہ کے متعلق لاعلم ہونے کا کہا اور جب کہا گیا کہ اس واقعہ کی تصاویر ٹویٹر پر موجود ہیں تو اس نے کہا اسے ان تصویروں کے متعلق علم نہیں نیز کہا کہ اس نے خود جاکر مذکورہ علاقہ دیکھا ہے اور ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔
یہ معیار ہے پاکستان کی انتظامیہ کی دیانت داری اور حق گوئی کا!ٹنچ بھاٹہ، راولپنڈی: مورخہ 11؍ جون 2020ء کو چند شرپسند عناصر کی طرف سے احمدیہ مسجد بیت الخورشید کے مین گیٹ پررات ساڑھے گیارہ بجے پتھراؤ کیا گیا۔ مقامی احمدیوں کی طرف سے اس واقعہ کی بروقت اطلاع متعلقہ حکام کو کر دی گئی جس پر مقامی پولیس نے موقع پر آکر چھان بین بھی کی۔ اس پر مخالفین احمدیت نے احمدیہ مسجد کے خلاف حکام کو درخواست دی جس میں ذکر کیا کہ احمدیوں نے رہائشی مکان کو بلا اجازت مسجد میں تبدیل کر دیا ہے اورختم نبوت ایکٹ کے مطابق احمدیوں کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں۔ اس درخواست میں مزید لکھا گیا کہ احمدی مقامی آبادی کو CCTVکیمروں کے ذریعہ ہراساں کرتے ہیں۔ بچوں کو لالچ دے کر احمدیت کی تعلیم سکھائی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس درخواست کو سوشل میڈیا پر بھی وائرل کیا گیا اور احمدیوں کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔
مقامی پولیس کی جانب سے احمدیوں کو جماعت مخالف تنظیم ختم نبوت کے شر پسند عناصر کی موجودگی میں حکام بالا سے ملاقات کرنے کا حکم نامہ موصول ہوا۔ اس پر احمدیوں نے ان شر پسند عناصر کی موجودگی میں ملاقات کرنے سے انکار کر دیاتاہم جماعتی وفد نے مقامی پولیس اسٹیشن میں ایس ایس پی اور ڈی ایس پی سے ملاقات کی۔
ایس ایس پی کی جانب سے جماعتی وفد کو کہا گیا کہ وہ دوسروں کو تنگ نہ کریں جبکہ ان کے اپنے حالات اچھے نہیں۔ احمدیوںنےاس بات کی وضاحت مانگی۔ چنانچہ ایس ایس پی نے کہا کہ آپ لوگوںنے عبادت گاہ تعمیر کی ہے۔ جماعتی وفد نے کہا کہ تعمیر نہیں کی بلکہ کچھ مرمت کا کام کیا ہے۔ ڈی ایس پی نے خود اس مرمت کے کام کو دیکھاہوا تھا۔ چنانچہ اس نے اس بات کی وہاں تصدیق کی۔ اس کے بعد ایس ایس پی نے کہا کہ یہ جگہ تبلیغی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مختلف گروہ یہاں آتے ہیں اور ان میں رقم تقسیم کرکے انہیں تبلیغ کی جاتی ہے۔ جماعتی وفد کی طرف سے اس بات کا انکار کیا گیا اور ثبوت کے طور پر یہ بات کی گئی کہ مسجد کے سی سی ٹی وی کیمروں کو بھی اس حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ملاقات میں ایس ایس پی نے احمدیہ مسجد کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر جماعتی وفد نے انہیں بخوشی اجازت دے دی۔ ایس ایس پی نےمخالفین کے کسی فرد کو ساتھ لےکر احمدیہ مسجد آنے کا کہا تو جماعتی وفد نے اس بات کی اجازت دینے سے انکار کردیاجس پر ایس ایس پی نے فریق مخالف کو ساتھ آنے سے روک دیا۔
بعدازاںپولیس نے مقامی احمدیوں سے تحریراً یہ بیان لکھوایا ہے کہ آئندہ احمدی اجازت کے بغیر عید یا جمعۃ المبارک کی نماز نہ ادا کریں گےاسی طرح کسی بھی قسم کی جماعتی سرگرمیوں پر پابندی ہو گی۔
یقیناً پولیس کی طرف سے کیے جانے والے یہ اقدامات احمدیوں سے ان کا حق عبادت چھیننے کے مترادف ہیں اور یہ عمل مذہبی انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے جبکہ پولیس کی جانب سے احمدیہ مسجد پر پتھر پھینکنے والے شر پسند عناصر کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہ کی گئی۔جون 2020ء:ختم نبوت یوتھ فورس پاکستان کی جانب سے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک نفرت آمیز پمفلٹ کی سوشل میڈیا پر اشاعت کی گئی۔ اس پمفلٹ میں جماعت کے خلاف بغض اور نفرت پھیلانے والوں نے اپنے فون نمبرز بھی درج کیے ہوئے تھے لیکن حکومتی انتظامیہ کی جانب سے ایسے عناصر کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اس پمفلٹ میں مذکور نفرت آمیز مواد درج ذیل ہے:
٭…جب قادیانی سپریم کورٹ اپنے حقوق کے لیے گئے تو سپریم کورٹ نے تاریخی الفاظ میں فیصلہ دیا دھوکہ باز کو کوئی حقوق نہیں۔
٭… وزارت سائنس وٹیکنالوجی کے استقبالیہ میں لگائی گئی غدار وطن عبدالسلام قادیانی کی تصویر کو ہٹایا جائے اور اس سازش میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
٭…پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کینٹ میں نئی آنے والی ملازمتوں میں قادیانیوں کا کو ٹہ ختم کر کے ان کی بھرتیوں پر پابندی عائد کی جائے۔
٭…یاد رہے کہ قادیانی تنظیمیں خدام الاحمدیہ اور فرقان فورس غیر ملکی حکومتوں سے بھاری معاوضہ لے کر پاکستان میں تخریب کاری و دھماکے کروا رہی ہیں۔
(ان لوگوں کویہ بھی نہیں معلوم کہ فرقان فورس کو ختم ہوئےاب 70؍سال ہو چکے ہیں۔)جون 2020ء:سندھ اسمبلی میں ختم نبوت کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی گئی جس کے تحت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ’’خاتم النبیین ‘‘لازمی لکھنا ہو گا۔ سندھ اسمبلی کی یہ کارروائی ملاں کو کوئی زیادہ خوش نہ کر سکی اور بعض نے کہا کہ ’’خاتم النبیین‘‘کی بجائے ’’آخر النبیین‘‘ لکھنا چاہیے تھا کیونکہ خاتم النبیین کا لفظ قرآن کریم میں بھی آیا ہے اور ’’قادیانی‘‘ایسا ماننے سے انکاری بھی نہیں۔
یادر رہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بجٹ خسارہ بہت بڑھ چکا ہے نیز پنجاب اور سندھ کی فصلیںٹڈی دَل کے نشانہ پر ہیں۔ اس صورت حال میں صوبائی حکومتیں مذکورہ ریزولیوشنز منظور کرنے میں اپنے وقت کو ضائع کر رہی ہیں۔کاناکونٹہ، 426JBضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ:مخالفین کی جانب سے ڈی ایس پی کو درخواست دی گئی ہے جس میں ذکر ہے کہ احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر اسلامی کلمات لکھے ہیں جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ نیز یہ بھی ذکر کیا گیا کہ احمدیوں کی قبروں اور دیگر مسلمانوں کی قبروں کے درمیان فرق کرنے کے لیے دیوار کی جائے۔
ڈی ایس پی کی جانب سے مخالفین کے مطالبات پورے کرنے کے لیے احمدیوں کو دس روز تک کا وقت دیا گیا ۔اسلام آباد، 5؍جون2020ء:لال مسجداسلام آباد سے تعلق رکھنے والے حافظ احتشام احمد نے مارگلہ پولیس اسٹیشن میں جماعت کے ترجمان سلیم الدین کے خلاف درخواست دائر کی ہے کہ انہوں نے 11؍مئی2020ءکو بی بی سی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ احمدی غیر مسلم سٹیٹس کو تسلیم نہیں کرتے اورکسی بھی پارلیمنٹ کے پاس کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں یہ معاملہ انسان اور خدا کے درمیان ہے۔
حافظ احتشام نے درخواست میں کہا کہ جماعت کے ترجمان کی یہ بات آئین پاکستان کے خلاف ہے نیز اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں لہٰذا 298C کے تحت اس ’’جرم ‘‘کے خلاف کارروائی کی جائے۔32\2Rضلع اوکاڑہ جون2020ء:یہاں کراچی سے مولوی امان اللہ نے آکر گاؤں میں جماعت کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع کر دی ہے۔ گاؤں کی بڑی مسجد سے احمدیوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہاں جماعت کے خلاف درج ذیل واقعات رونما ہوئے ہیں:
٭…راؤ محمد اشرف جو کہ ایک غیر احمدی تھےا ور اس ماہ رمضان میں وفات پا گئے۔ علاقہ کے ملاؤں نے ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا کیونکہ مرحوم نے اپنی زندگی میں ایک احمدی کے جنازہ میں شمولیت کی تھی۔
٭…رانا ناصر محمود سالہا سال سے علاقے کے غربا کی مدد کی غرض سے رمضان کے مہینے میں راشن پیک اور نقد تقسیم کرتے آئے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ ملاؤں نے شور مچانا شروع کر دیا اور یہ اعلان کیا کہ اگر کسی نے بھی محمود سے کسی بھی قسم کی مدد لی تو اس کا نکاح ٹوٹ جائےگا۔
٭…رانا ناصر محمود کی زمینوں پر کام کرنے والے ایک شخص کو زبردستی کام چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ نیز انہیں اوران کی فیملی سے دوبارہ کلمہ پڑھوا کرانہیں ‘مسلمان’ بنایا گیا۔
٭…ایک احمدی دودھ فروش کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کی غرض سے علاقہ کےمکینوں کو ان سے دودھ لینے سے منع کر دیا گیا۔