شمالی مغربی چین میں سینکڑوں مسلمان ایک مسجد کی مسماری کے خلاف اس وقت حکام کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں. مسلمانوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے. ایک رہائشی نے کہا کہ وہ "حکومت کو مسجد کو چھونے تک نہیں دیں گے”.
چین میں مسلمانوں کی کل آبادی دو کروڑ 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور وہ ننگشیا صوبے میں کئی صدیوں سے مقیم ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ سرکاری طور پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
احتجاج کیسے شروع ہوا:
تین اگست کو مقامی انتظامیہ نے نوٹس جاری کیا کہ اس ‘مسجد کو زبردستی مسمار کر دیا جائے گا’ کیونکہ اس کی تعمیر سے قبل ضروری اجازت نامے حاصل نہیں کیے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ نوٹس مقامی ہوئی مسلم برادری میں بانٹا گیا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نیوز پیپر کے مطابق کئی لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ انتظامیہ نے یہ قدم مسجد کی تعمیر کے دوران کیوں نہیں اٹھایا حالانکہ اس مسجد کو تیار ہونے میں دو سال کا عرصہ لگا تھا۔
اس مسجد کے کئی بلند مینار اور گنبد ہیں اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے طرزِ تعمیر کے تحت تعمیر کیا گیا ہے۔
جمعرات کو مسجد کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا جو اگلے دن تک چلا۔ چینی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی تصاویر میں مسجد کے باہر بڑی تعداد میں مظاہرین کو دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ مسجد کو جمعے کو مسمار کرنے کا منصوبہ ابھی قائم ہے یا مظاہرین اور حکام کے درمیان کوئی معاہدہ ہو گیا ہے۔
چین کے سرکاری میڈیا پر اس تنازعے کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی گئی۔