اسلام آباد (ربوہ ٹائمز) صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے مضافاتی علاقے شیخ محمدی میں نامعلوم افراد نے جماعتِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 75 سالہ شخص محبوب احمد کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا ہے۔
بڈھ بیر تھانے کے ایس ایچ او اعجاز خان نے بذریعہ ٹیلیفون بی بی سی کو بتایا کہ بڈھ بیر کے علاقے ماشو خیل میں محبوب احمد کی بیٹیاں اور کئی رشتہ دار عرصہ دراز سے مقیم ہیں۔ ان کے مطابق محبوب احمد اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے وہ وہاں آئے تھے۔

ایس ایچ او اعجاز خان کے مطابق آج صبح 9-9:30 کے درمیان وہ ماشو خیل سے واپس پشاور جانے کے لیے جب بس سٹاپ پر انتظار کر رہے تھے، اسی دوران کسی نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔

پولیس کے مطابق محبوب احمد کی لاش کو خیبر میڈیکل کالج روانہ کر دیا گیا ہے اور پولیس جائے وقوعہ پر موجود ہے جہاں اس قتل کے حوالے سے مزید تفتیش جاری ہے۔
یاد رہے گذشتہ ماہ پشاور میں احمدی پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کا قتل کر دیا گیا جبکہ اگست میں 61 سالہ احمدی شہری معراج احمد کو بھی پشاور میں ہی قتل کیا گیا تھا۔
جماعت احمدیہ کے مطابق حالیہ دنوں میں مذہب کی بنیاد پر پشاور میں احمدیوں کو ہدف بنا کر حملہ کرنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے محبوب خان کے قتل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی عمر 82 سال تھی اور وہ پشاور کے نزدیک شیخ محمدی گاؤں کے رہائشی تھے لیکن کچھ عرصہ قبل پشاور میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔

سلیم الدین نے بتایا کہ آج صبح جب وہ شیخ محمدی سے پشاور واپسی کے لیے خاناں بس سٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کر رہے تھے، اس موقع پر چند نامعلوم افراد نے انتہائی قریب سے انھیں گولی ماری جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پشاور میں رہنے والے ہر احمدی کی جان کو خطرہ لاحق ہے اور محبوب احمد کو بھی تھا۔
سلیم الدین کے مطابق ’ان کے علم میں نہیں کہ کسی نے محبوب احمد کو براہِ راست کسی قسم کی کوئی دھمکی دی ہو‘ تاہم انھوں نے دعوی کیا کہ ’محبوب احمد کے مذہب کے علاوہ انھیں مارے جانے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ محبوب احمد ایک ایسی عمر میں تھے کہ ان کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا یا لین دین تھا ہی نہیں۔

سلیم الدین کا کہنا تھا چند مہینوں سے پشاور میں مسلسل احمدی کمیونٹی پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان نے دعوی کیا کہ پشاور کی عدالت میں توہین رسالت کے ملزم کے قتل کے بعد، ملزم کی سوشل میڈیا پر حوصلہ افزائی اور ان کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں کے بعد ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا ’جس شہر میں آپ ایک قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کریں گے، اسے بہت بڑا کارنامہ سمجھتے ہوئے ان کے حق میں لاکھوں افراد ریلیاں نکالیں گے تو یقیناً دوسرے بھی اسی راستے پر چلنا چاہیں گے۔‘

یاد رہے 29 جولائی کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ملزم طاہر احمد نسیم کو ملزم فیصل خالد نے سیشن جج کی عدالت میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سلیم الدین کا کہنا تھا کہ پولیس ہمیشہ یہی کہتی ہے کہ ’ہم تفتیش کر رہے ہیں یا ہم کریں گے، لیکن احمدیوں پر حملے رکنے کا نام نہیں لے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت سنجیدہ نہیں ہے، اگر وہ سنجیدگی سے کوئی کوشش کریں اور احمدیہ کمیونٹی کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرتوں پر قابو پائیں تو شاید کوئی فرق پڑے۔‘

پاکستان میں محبوب احمد کی ہلاکت کے حوالے سے جماعت احمدیہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز ے مطابق ’احمدیوں کے خلاف مسلسل جاری منفی پراپیگنڈہ مہم کے نتیجے میں احمدی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔‘

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’پشاورمیں یکے بعد دیگرے احمدیوں پر منظم حملے جاری ہیں اور حکومت احمدیوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔‘

جماعت احمدیہ کے ترجمان نے محبوب خان صاحب کے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس واقعہ کو ’مذہبی منافرت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بالعموم اور پشاور میں بالخصوص عقیدے کے اختلاف کی بنا پر احمدیوں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کی زندگیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے احمدیوں میں عدم تحفظ کے احساس میں شدت پیدا ہو ئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت احمدیوں کی جان و مال کی حفاظت سے عمداً بے توجہی کر رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’احمدیوں کے خلاف نفرت آمیز مہم میں شدت آگئی ہے۔ نفرت انگیز مہم چلانے والوں سے مسلسل حکومتی چشم پوشی نے شر پسند عناصر کے حوصلوں کو مزید تقویت دی ہے۔ احمدی وطن عزیز کے محب وطن شہری ہیں جن کے جان ومال کی حفاظت کی زمہ داری ریاست کی ہے۔‘

سلیم الدین کی جانب سے ریاستی اداروں سے احمدیوں کے تحفظ کے لیے فوری طور پر موثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔