نیویارک (ویب ڈیسک) پشاور کے مضافاتی علاقے بازید خیل میں جمعرات کو ایک احمدی ڈاکٹر کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق مبینہ حملہ آور ایک نوجوان ہے جو مریض کے روپ میں آیا تھا۔

گذشتہ چند ماہ میں پشاور میں چار ایسے افراد کو ہدف بنا کر مارا گیا ہے جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے بتایا گیا ہے۔

تھانہ انقلاب کے پولیس اہلکار ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اب تک موقع سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق یہ ایک چھوٹا سا میڈیکل سٹور اور کلینک ہے جہاں مقامی لوگ ادویات اور علاج کے لیے آتے ہیں۔

پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ اس کلینک کے ایک ڈاکٹر ابن امین نے بتایا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے کلینک کے پاس ہی واقع اپنے گھر گئے تھے کہ اتنے میں فائرنگ کی آواز سنی جس پر وہ گھر سے باہر آئے تو ڈاکٹر عبدالقادر خون میں لت پت زخمی حالت میں پڑے تھے اور مبینہ حملہ آور نوجوان کو لوگوں نے پکڑ رکھا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقادر کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔
65 سالہ عبدالقادر ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے پسماندگان میں بیوہ، 4 بیٹے اور 5بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔

پولیس کے مطابق وہاں موجود ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عبدالقادر کو مذہبی بنیادوں پر قتل کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے بعد وہاں موجود لوگوں نے ویڈیو بھی بنائی ہے جس میں ایک نوجوان کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے اور پھر اسے پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس نوجوان سے وہاں موجود لوگوں نے پوچھا کہ ’تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو‘ تو لڑکے نے بتایا کہ وہ ضلع خیبر سے آیا ہے۔ لوگوں نے جب اس سے پوچھا کہ ’تمھیں کس نے بھیجا ہے‘ تو اس نے کہا کہ وہ خود آیا ہے اور اس کے پیچھے اور کوئی نہیں ہے۔

پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ مبینہ حملہ آور کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے جہاں اس سے تفتیش کی جا رہی ہے۔

اس موقع پر بنائی گئی ویڈیو میں پولیس کو بتایا جا رہا ہے کہ اس ہسپتال میں سکیورٹی کا انتظام کیا گیا ہے لیکن ’یہ لڑکا ایک مریض بن کر آیا تھا‘۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق انھیں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ دوپہر کے وقت پیش آیا جس میں ڈاکٹر عبدالقادر پہلے زخمی ہوئے اور پھر ہلاک ہوگئے۔ ترجمان کے مطابق بازید خیل میں واقع میڈیکل سینٹر احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص چلا رہے ہیں اور یہ میڈیکل سینٹر ایک عرصے سے اس علاقے میں قائم ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالقادر کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی اور دعویٰ کیا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے انہیں خطرات لاحق تھے جس کی بنا پر چند ماہ قبل انھوں نے اپنے اہل خانہ کو پشاور سے دور ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان نے قتل پر شدید رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں عمومی اور پشاور میں خاص طور پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں شدت آگئی ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے احمدیوں کو مسلسل قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ میں پاکستان میں یہ آٹھواں واقعہ ہے جس میں احمدیوں کو ہدف بنا کر حملہ کیا گیا ہے۔‘

یاد رہے گذشتہ سال آٹھ نومبر کو اسی علاقے بازید خیل کے قریب شیخ محمدی کے علاقے میں محبوب خان نامی شخص کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
محبوب خان اپنی بیٹی سے ملنے کے بعد واپس اپنے گھر جا رہے تھے کے بس سٹاپ پر انھیں نشانہ بنایا گیا تھا۔

جبکہ گذشتہ برس اکتوبر میں پشاور میں کوہاٹ روڈ پر فائرنگ کے ایک واقعے میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کو قتل کر دیا گیا تھا۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مسلسل قاتلانہ حملوں سے احمدیوں میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔