نیویارک (ربوہ ٹائمز) پاکستان کی قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل 2025 پر بحث کے دوران اس وقت اہم صورتحال پیدا ہوئی جب سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ سے دو بنیادی وضاحتیں طلب کیں۔
سپیکر نے سوال کیا کہ:
سپریم کورٹ نے اس کمیشن کے قیام سے متعلق کیا ہدایات دی تھیں؟
اور یہ کہ بل کے بعد قادیانی جماعت کا قانونی اسٹیٹس کیا ہوگا؟
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کسی بھی ایسے اقدام کا حصہ نہیں بنے گی جس سے ’قادیانیت‘ کو تقویت ملتی ہو۔ انہوں نے بتایا کہ بل کی شق 35 کو مکمل طور پر حذف کر دیا گیا ہے کیونکہ اس پر مختلف جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے تھے۔
وزیرِ قانون نے واضح کیا کہ:
پاکستانی قانون کے مطابق قادیانی مسلمان قرار نہیں دیے گئے۔
کمیشن کے پاس نہ سزا و جزا کا اختیار ہوگا، نہ ہی وہ ازخود نوٹس لے سکے گا۔
بل کا مقصد صرف اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ادارہ جاتی فریم ورک بنانا ہے، اس میں کوئی مذہبی ترمیم شامل نہیں۔
اسمبلی میں مذہبی حوالوں کے بار بار استعمال پر سوالات
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کا آئین ریاست کو مذہب سے الگ تصور کرتا ہے، تاہم اس کے باوجود اسمبلی کے اندر مذہبی شناختوں کا بار بار ذکر — خصوصاً ایک مخصوص مذہبی گروہ کا نام لے کر بحث کرنا — اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مذہبی معاملات کو سیاسی بحث کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے موضوعات کو اچھالنے سے عوامی جذبات بھڑکنے اور معاشرتی تقسیم بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بل کا بنیادی مقصد اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور آئینی ذمہ داریوں کی تکمیل ہے، تاہم اس حوالے سے ہونے والی بحث نے ملک میں مذہبی حساسیت پر ایک بار پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
