انڈیا ( ربوہ ٹائمز آن لائن )بھارت کی ریاست کیرالہ جب پچھلے دنوں زبردست سیلاب کی زد میں آئی اور لاکھوں لوگ جب انتہائی مشکل حالات میں گھرے ہوئے تھے تو بعض ہندو رہنماؤں نے کہا کہ پچھلے سال کیرالہ کے لوگ ریاست میں گائے کے گوشت کا فیسٹیول منا رہے تھے، بھگوان کی طرف سے یہ اسی کا عتاب ہے۔
بی بی سی کے حوالے سے مقامی اخبار نے لکھا کہ ریاست کے سب سے اہم مندر سبری مالا کے ایک پجاری نے کہا کہ مندر کی اصل عبادت گاہ میں خواتین کے داخلے کی اجازت دینے کے سبب یہ تباہی ہوئی ہے،قدرتی آفت ایک جغرافیائی اور ارضیاتی عمل ہے اور بیشتر معاملات میں ماہرین ان کے بارے میں پیشگی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت اچھی طرح تیار ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف وسائل ہیں بلکہ انہوں نے ان کا مقابلہ کرنے کے طریقے بھی وضع کر رکھے ہیں۔اس کے برعکس انڈیا جیسے ممالک میں نسبتاً چھوٹی آفت بھی بڑی جانی اور مالی تباہی مچاتی ہے۔ قدرتی آفات میں ہر برس سینکڑوں جانیں جاتی ہیں اور لاکھوں زندگیاں تباہ ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ملک کا سیاسی نظام ہے۔اس نظام میں سیاسی قیادت صرف انھی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتی ہے جن سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو اور جن سے اسے آئندہ انتخابات میں ووٹ مل سکے۔ سائنسی ترقی، موسم کی بہتر پیش گوئی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری جیسے اہم معاملات میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ ان پر نہ صرف خاصے اخراجات ہوں گے بلکہ اس سے انہیں کوئی انتخابی فائدہ بھی نہیں ہونے والا ہے۔جب تک ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سانٹیفک اور جامع پروگرام اور منصوبہ نہیں تیار کیا جاتا عوام ان قدرتی آفات کے سامنے اسی طرح بے بس اور مجبور رہیں گے اور ماضی کی جہالت کی طرح مستقبل میں بھی ان آفات کو انسان پر ’آسمانی عتاب‘ اور ’انسانی گناہوں کی سزا‘ سے تعبیر کیا جاتا رہے گا۔