طالبان کے کمانڈروں کی رہائی کے بدلے میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے تین انجینئروں کو رہا کر دیا گیا

افغانستان (ربوہ ٹائمز نیوز ڈیسک) ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان کے کئی سرکردہ کمانڈروں کی رہائی کے بدلے میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے تین انجینئروں کو رہا کر دیا گیا ہے۔

طالبان کے ایک دھڑے حقانی گروپ کے ایک رکن کے علاوہ رہائی پانے والوں میں دس اور اہم کمانڈر شامل ہیں۔

اتوار کو بازیاب ہونے والے انڈیا کے تین انجینئر شمالی افغانستان میں گزشتہ سال اپنے ڈرائیور سمیت اغوا ہونے والے سات انجینئروں میں شامل تھے۔

یہ خبر طالبان اور امریکی کے خصوصی ایلچی کے درمیان ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔ طالبان اور امریکی سفیر کے درمیان امن مذاکرات کے ایک ماہ قبل معطل ہونے کے بعد یہ فریقین کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔

اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان ملاقات امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے طالبان کے ساتھ امریکہ میں مذاکرات کو تقریباً ایک مہینے قبل منسوخ کیے جانے کے بعد ہوئی۔

ذرائع کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کا مسئلہ ملاقات کے ایجنڈے پر دیگر امور کے ساتھ موجود تھا۔

تین اہم سرکردہ طالبان رہنماؤں کو افغانستان میں قید سے رہا کیا گیا جن میں ذرائع کے مطابق نمروز صوبے کے سابق گورنر بھی شامل ہیں۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق عبد الرشید بلوچ کا نام ماضی میں عالمی دہشت گردوں کی خصوصی فہرست میں شامل تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ خود کش حملہ آووروں کو تیار کرنے کے لیے منشیات کے کاروبار سے مالی وسائل مہیا کرتے ہیں۔

رہائی پانے والوں میں حقانی گروپ کے ایک اہم رکن بھی شامل ہیں جن کا تعلق کنڑ کے صوبے سے ہے اور جن پر الزام تھا کہ وہ افغان اور نیٹو افواج پر مربوط حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع ہے کہ اس معاہدے کے تحت آٹھ اور شدت پسندوں کو رہا کیا گیا ہے۔

ان طالبان کمانڈروں کو انتہائی کڑے پہرے میں بگرام جیل میں رکھا گیا تھا۔

طالبان کی طرف سے رہا کیے جانے والے مغوی انڈین انجینئروں کے نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔ ایک مغوی کو اس سال مارچ میں رہا کیا گیا تھا جب کہ اس کے باقی ساتھیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔

افغان، امریکی اور انڈیا کے حکام کی طرف سے فوری طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔

انڈیا کے انجینئروں کا ایک گروپ شمالی افغانستان کے صوبے بغلان میں بجلی بنانے والے ایک کارخانے پر کام کر رہا تھا جب انھیں ان کے ڈرائیوں سمیت مئی 2018 میں اغوا کر لیا گیا تھا۔

اغوا برائے تاوان افغانستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے جہاں ملک کے وسیع علاقوں پر حکومت کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے اور شدت پسند کو کارروائیاں کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں.