جماعت احمدیہ جرمنی کے زیرِ اہتمام نسلی امتیاز کے خاتمہ میں مذاہب کاکردار کے موضوع پر پروگرام کا انعقاد

جرمنی (ربوہ ٹائمز) جماعت احمدیہ جرمنی نے شہر گروس گیراؤ میں مذاہب نسلی امتیاز کے خاتمہ میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کے عنوان سے پروگرام منعقد کیا ۔ کورونا وباکی پابندیوں کی وجہ سے ہال میں صرف 70افراد ہی کی گنجائش تھی جو آن کی آن میں مہمانوں سے بھرگیا۔ لوگوں کی دلچسپی کا موجب اس پروگرام کا موضوع ہی بنا یعنی ‘‘مذاہب نسلی امتیاز کے خاتمہ میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟’’۔
مکرم دانیال طارق صاحب سیکرٹری تبلیغ لوکل امارت گروس گیراؤ نے تعارفی کلمات کے ساتھ مہمانوں کو خوش آمدید کہا.
گروس گیراؤ کے میئرجناب Erhard Walther صاحب سامعین سے مخاطب ہوئے اور تمام مذاہب کو نسلی امتیاز کے خاتمہ کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ بعد ازاں اسٹیج پر بیٹھے معزز مہمانوں نے مندرجہ بالا موضوع پربات کی جس میں مندرجہ ذیل شخصیات شامل گفتگو تھیں :
مکرمہ Christine Buchholz صاحبہ ممبر وفاقی پارلیمنٹ، Michael Gahler ممبر یورپین پارلیمنٹ، ڈاکٹر Reiner Becker ڈائریکٹر ادارہ برائے فروغ جمہوریت صوبہ ہیسن، Nilüfer Kus بلدیہ گروس گیراؤ دفتر برائے انسداد شدت پسندی و نسلی تعصب، Wolfgang Prawitzپروٹسٹنٹ چرچ گروس گیراؤ و رسلزہائم اور مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب امیرجماعت جرمنی۔
اس پروگرام کی کمپیئرنگ کے فرائض مکرم سلمان طیب صاحب (ٹی وی جرنلسٹ) نے ادا کیے، جنہوں نے شروع میں ہی معزز مہمانوں سے یہ سوال کیا کہ

کیا جرمنی میں نسلی امتیاز پایا جاتا ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟
تمام شاملین اس بات پرمتفق تھے کہ جرمنی میں نسلی تعصب کا مسئلہ ضرور پایا جاتا ہے مگر اس کے اسباب پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ مثلاًمکرم Gahlerصاحب ممبر آف یورپین پارلیمنٹ کے نزدیک اس کی وجہ نوآبادیاتی دور تھا، جبکہ امیر صاحب جرمنی نے اس کی ایک بڑی وجہ تربیت کی کمی کوقرار دیا اورمکرمہ Kus صاحبہ نے جرمنی کی سماجی ساخت کو اس کا بڑا سبب بیان کیا ۔

مکرمہ Kus صاحبہ نے گروس گیراؤ میں اس ضمن میں ہونے والے کام پر روشنی ڈالی اور ایک حجاب پہننے والی خاتون کا ذکر بھی کیا جن کو ان کے اسلامی پردہ کی وجہ سے گروس گیراؤ کے ایک بس سٹا پ پر گالیاں دی گئیں اوران پر شراب پھینکی گئی۔ جبکہ وہاں کھڑے لوگو ں میں سے کسی نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شخص کی مذمت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے متعلق بات کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر میں نے اس پر بات نہ کی تو کوئی بھی اس کا ذکر نہیں کرے گا۔ ان کے نزدیک اُس موقع پر موجود لوگوں کا رویہ قابل افسوس تھا کیونکہ کسی نے اس نسلی امتیاز کی وہاں مذمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ بعد میں پولیس نے بھی اس واقعہ کو معمولی قرار دینے کی کوشش کی۔ اِن کے نزدیک اس قسم کے نسلی امتیاز کے متاثرین کو اس پر کھل کر بات کرنی چاہیے تاکہ ایسے واقعات کا سدّ باب کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالا واقعہ کی خبر دو مہینے بعد پریس میں شائع ہوئی تھی۔
مکرمہ Buchholzصاحبہ ممبر پارلیمنٹ نے اس بات پر زور دیا کہ خاص طور پر مسلمانوں سے تعصب میں پچھلے سالوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ‘‘جو نازی سوچ کو ختم کرنا چاہتا ہے اسے مسلمان مخالف تعصب کے خلاف بھی آواز اٹھانی پڑے گی۔ اور بعض دفعہ تعجب ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو ویسے تو نسلی تعصب کے خلاف بات کرتے ہیں مگر جب مسلمانوں سے تعصب کی بات آتی ہے تو اپنا رویہ بدل لیتے ہیں۔‘‘

Becker صاحب نے اس طرف توجہ دلائی کہ نسلی تعصب گیارہ ستمبر کے واقعے اور 2015ء میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کے بعد خاص طور پر بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا ‘‘اس کے علاوہ ہم اس مسئلہ کو کئی دہائیوں سے پس پشت ڈالتے آرہے ہیں اور ہم نے مہاجرین کے معاملات میں دلچسپی نہیں لی۔ اب ہمیں اس کوتاہی کو دور کرنے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑے گی۔ فی الحال اس پر کافی کام ہو رہا ہے جس سے ہم پر امید ہیں، مگر ہدف حاصل کرنے تک لمبی جد و جہد کی ضرورت ہے۔ ’’
ممبر آف پارلیمنٹ مکرم Gahler صاحب نے اس ضمن میں وزیر داخلہ Seehofer کے متعلق کہا ‘‘اگر وہ مجھ سے پولیس میں نسلی تعصب سے متعلق تحقیق پر بات کرتے تو میں انہیں ضرور اس تحقیق کو کرنے کا کہتا۔’’ علاوہ ازیں یہ چیز بھی اہمیت کی حامل ہے کہ سیاستدان اپنی کرسی چھن جانے کے خوف سے اکثریت کی رائے کی بجائے درست چیز کو اہمیت دیں۔ صرف اسی صورت میں سیاست صحیح رنگ میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔
پروگرام کے مقررہ دو گھنٹے جس میں سامعین کے سوالات کے لیے بھی وقت رکھا گیا تھا بہت جلد ختم ہوگئے۔ آخر میں پروگرام کے موڈریٹر صاحب نے کہا کہ اگر ہم سب آج اس پروگرام کے بعد نسلی تعصب کے خاتمہ کے لیے زیادہ توجہ دیں اور اس قسم کے واقعات پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے ایسی سوچ پر سوال اٹھائیں تو ہم نے آج اپنا ایک ہدف پورا کر لیا ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اپنی ذات میں آپس کے بغض ونفرت کو دور کرنے کی کوشش کریں اور وہ پہلا قطرہ بنیں جو ایک معاشرے میں حسین انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ ایسا انقلاب جو ہماری معاشرتی ہم آہنگی کو مضبوط کرے۔ اِنہیں الفاظ کے ساتھ آپ کی شمولیت کا شکریہ کہ آپ نے اس اہم موضوع کے لیے وقت نکالا۔