لاہور ( ربوہ ٹائمز نیوز ڈیسک) بھارت نے پاکستان کو شیڈول دینے کے باوجود دریائے چناب پر متنازع منصوبوں کا معائنہ کرانے سے انکار کردیا۔
پاکستانی انڈس واٹر کمیشن کو متنازع منصوبوں کا معائنہ کرنا تھا جس کے لیے بھارت نے 7 سے 12 اکتوبر تک کا شیڈول بھی جاری کیا تھا۔
تاہم ایک مرتبہ پھر بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریائے چناب پر متنازع آبی منصوبوں کا معائنہ کرانے سے انکار کردیا۔
دوسری جانب انڈس واٹر کمیشن نے بھی تصدیق کی ہے کہ:
بھارت نے آئندہ ماہ آبی منصوبوں کے معائنے کا شیڈول منسوخ کردیا ہے.
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت آبی منصوبوں کا معائنہ کرانے کا پابند ہے جس کی وہ گزشتہ چار سال سے خلاف ورزی کر رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے پانی کی آمد پر ہوتا ہے۔ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے کافی اہم ہے۔
اس معاہدے کی ضرورت 1948 میں اُس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کردیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی اور 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہےجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔چوں کہ مغربی دریاؤں میں سے کئی کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا، اس لیے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اور مقبوضہ علاقوں سے گزرنے والے دریاؤں میں یعنی سندھ، چناب اور جہلم پر 15 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے جبکہ مزید 45 سے 61 ڈیمز بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ ان دریاؤں پر آب پاشی کے 30 سے زائد منصوبے بھی مکمل کیے گئے ہیں۔حال ہی میں آنے والی خبروں کے مطابق اب بھارت 15 ارب ڈالر کی لاگت سے مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کرہا ہے جس میں 1856 میگاواٹ کا سوا لکوٹ پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے۔ کشن گنگا، رتلے، میار، لوئر کلنائی، پاکال دل ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ اور وولر بیراج نیوی گیشن پروجیکٹ پر بھی کام کا آغاز کیا جارہا ہے جن کا مقصد بظاہر تو بجلی بنانا ہے لیکن اس کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا بتایا جاتا ہے۔
دوسری جانب بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے کئی بار سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے جبکہ دریاؤں کا رخ موڑنے کا اعلان بھی کرتا نظر آتا ہے۔