میانمار کے 6 فوجی جرنیل روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں، اقوام متحدہ کمیشن رپورٹ

واشنگٹن ( ربوہ ٹائمز ویب ڈیسک ) اپنی رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن نے میانمار کی فوج کے چھ جرنیلوں کے نام لے کر کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور اس کی منصوبہ بندی کی بڑی ذمہ داری ان فوجی افسران پر عائد ہوتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ایک تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ میانمار کے کئی سینئر فوجی افسران ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمان اقلیت کی نسل کشی میں ملوث ہیں جس پر ان کے خلاف بین الاقوامی عدالت برائے جرائم میں مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔

عالمی ادارے کی جانب سے بنائے جانے والے تین رکنی ‘آزاد بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار’ نے پیر کو جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی تحقیقات کے نتائج سے صحافیوں کو آگاہ کیا۔

کمیشن نے 400 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال شمالی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ان کی باقاعدہ اور منظم نسل کشی تھی جس کی منصوبہ بندی کئی سال قبل کی گئی تھی۔

گزشتہ سال راکھین میں میانمار کی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی تھی جہاں وہ تاحال عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔

اپنی رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن نے میانمار کی فوج کے چھ جرنیلوں کے نام لے کر کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور اس کی منصوبہ بندی کی بڑی ذمہ داری ان فوجی افسران پر عائد ہوتی ہے۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں راکھین کے علاوہ میانمار کی دو دیگر ریاستوں -کاچین اور شان – میں آباد نسلی اقلیتی گروہوں کے خلاف میانمار کی فوج کی کارروائیوں کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے اور ان دو ریاستوں میں فوج کی کارروائیوں کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم قرار دیا ہے۔

بین الاقوامی تفتیش کاروں نے اپنی رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ ان تمام تر "وحشیانہ اور بڑے پیمانے پر کی جانے والی کارروائیوں” کی ذمہ داری میانمار کی اعلیٰ قیادت پر عائد ہوتی ہے۔

پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کمیشن کے رکن کرسٹوفر سیڈوٹی نے بتایا کہ ان کے کمیشن نے میانمار میں نسل کشی کے واقعات کے اتنے شواہد جمع کرلیے ہیں کہ یہ معاملہ مزید تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے بین الاقوامی عدالت کو بھیجا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کو یقین ہے کہ راکھین میں جو کچھ ہوا وہ ملک کی سینئر فوجی قیادت کے علم میں لائے بغیر اور ان کی نگرانی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ راکھین میں ہونے والے واقعات میں میانمار کی فوج کی ‘چین آف کمانڈ’ کا کردار بالکل واضح ہے اور اسی لیے کمیشن نے چھ اعلیٰ ترین جرنیلوں کے خلاف مزید تحقیقات اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی سفارش کی ہے۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی سول حکومت کو فوج پر محدود اختیار حاصل ہے لیکن اس کے باوجود کمیشن کے بقول سول حکومت یہ کارروائیاں روکنے میں اپنا کردار ادا کرسکتی تھی لیکن اس نے ان مظالم پر اپنی آنکھیں بند رکھیں۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں میانمار کی حکومت کی سربراہ اور امن کی نوبیل انعام یافتہ سیاست دان آنگ سان سوچی کو بھی راکھین میں پیش آنے والے واقعات روکنے کے لیے اپنی اخلاقی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

میانمار کی حکومت نے اقوامِ متحدہ کے اس کمیشن کو اپنی تحقیقات کے لیے میانمار میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے کمیشن نے اپنی یہ رپورٹ مظالم کا شکار ہونے والے اور ان کے عینی شاہدین 875 افراد کے بیانات، سیٹلائٹ تصاویر، دستاویزات، تصویروں اور ویڈیوز کی بنیاد پر مرتب کی ہے۔

بین الاقوامی کمیشن نے اپنی رپورٹ میانمار کی حکومت کو بھی پیش کی ہے جس پر اس نے تاحال کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔