ڈاکٹر عبد السلام بنام عاطف میاں!

پیارے عاطف میاں ! السلام علیکم !

سوشل ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ تم سے ہونے والے برتاؤ کی خبریں آج کل خوب گرم ہیں۔ عالم سفلی میں تمہارے ساتھ جو سفلی سلوک ہو رہا ہے وہ دیکھ اور سن کر چاہا کہ تمہیں چند باتیں کہوں اس لئے یہ خط لکھنے کا سوچا۔

عاطف میاں! تم اس سفلی سلوک کو دیکھ کر پریشان ہر گز نہ ہونا کیونکہ عالم بالا میں اس سلوک کی وجہ سے تمہاری بلے بلے ہو رہی ہے۔ قائد اعظم سمیت ہر پاکستانی جو ملک کا درد رکھتا ہے اس کو خوشی ہے کہ ایک پاکستانی اس قدر قابل ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ تمہارے ساتھ ہونے والے سلوک پر ناراض بھی ہیں۔ تمہارے ساتھ ہونے والا سلوک دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ میں اور تم ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں دہائیاں پہلے یہ سفر کر چکا ہوں جبکہ تم اس کشتی کے نئے نئے سوار ہو۔ تم میں اور مجھ میں بہت کچھ ایک جیسا ہے۔ تم بھی ایک پاکستانی ہو اور میں بھی ایک پاکستانی ہوں۔ تم نے بھی اپنی تعلیم کی ابتداء پاکستان سے کی اور میں نے بھی۔ تم نے بھی اعلیٰ تعلیم بیرون ملک سے حاصل کی اور اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں اور میں نے بھی اعلیٰ تعلیم بیرون ملک سے حاصل کی اور اعلیٰ کامیابیا ں حاصل کیں۔ لیکن یہ تو تھیں ہم دونوں کی کامیابیاں جس کے لئے ہم نے محنت کی اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ ساری دنیا میرے علم سے فائدہ اٹھاتی تھی اور اپنے ملک میں بلانا اور وہاں کے طالبعلموں کو لیکچر دینا پسند کرتی تھی۔ میری محنت اور قابلیت کی وجہ سے اٹلی جیسے ملک میں ایک ادارہ بھی میرے نام سے تعمیر ہوا۔ مجھے علمی میدان کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز بھی مل گیا۔ ساری دنیا میری تعریف کرنے لگی سوائے میرے اپنے ملک کے۔ مجھے میرے اپنے ہی ملک والوں نے ’’یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ‘‘ قرار دیا۔ مجھے ’’غدار‘‘ ٹھہرایا گیا۔ میرے پر طرح طرح کے فتوے لگے۔ وجہ صرف ایک تھی کہ میں اس عقیدے کو مانتا تھا جس کو میں صحیح جانتا تھا۔ میرے احمدی(قادیانی) ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے ہی ملک میں لعن طعن کا شدید سامنا کرنا پڑا۔ میں ساری عمر یہی کوشش کرتا رہا کہ پاکستان میں علم اور سائنس کے فروغ کے لئے کام کروں لیکن اس ملک کے نام نہاد ’’علماء‘‘ نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ میں قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچر دینے آیا تو مجھے قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔

یہ سب کچھ میں اپنے ملک و قوم کی خاطر برداشت کرتا رہا۔ پر اس ملک نے میری قابلیت اور میرے علم کو میرے عقیدے کی وجہ سے مسترد کر دیا۔ آج تم بھی اسی جگہ کھڑے ہو۔ تم بھی اپنے ملک کے لئے کام کرنے کو بے چین ہو۔ تمہارے مضمون ملک کی معاشی ترقی کے لئے پڑھتا رہتا ہوں اور یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ تم اپنے ملک کو اندھیروں سے نکالنا چاہتے ہو۔ ساری دنیا بشمول عرب ممالک تمہاری قابلیت کے معترف ہیں۔ اسلامی ممالک (بشمول سعودی عرب) تمہیں اپنے ملک میں سمینارز پر بلاتے ہیں۔ لیکچرز کے لئے بلاتے ہیں۔ تمہاری خدمات لینا چاہتے ہیں اگر کوئی نہیں چاہتا تو اس مٹی کے لوگ جس سے تمہیں سب سے زیادہ پیار ہے۔ شاید تمہاری قابلیت کی وجہ سے چند سالوں میں تمہیں بھی نوبل پرائز مل جائے۔ پوری امید رکھتا ہوں کہ تمہیں ضرور ملے گا لیکن یہ نوبل پرائز ساری دنیا میں تمہاری قدر اور عزت بڑھا دے گا لیکن پاکستان میں تمہاری رسوائی کا باعث بنے گا۔ ساری دنیا میں تمہیں مخاطب کرنے کا طریق یہ ہے اور یہی ہوگا کہ ’’پاکستانی عاطف میاں‘‘ لیکن پاکستان میں تمہیں ’’یہود و نصاری کا ایجنٹ عاطف میاں‘‘ اور ’’کافر عاطف میاں‘‘ کہا جائے گا۔ اصل امتحان تمہارا اس وقت شروع ہوگا۔ آنے والے منظر کا ٹریلر تم آج کل دیکھ رہے ہو۔

پیارے عاطف میاں! گزشتہ ستر سالوں میں قائد کا پاکستان تو کہیں کھو گیا ہے۔ آج کا پاکستان ان کا پاکستان ہے جو قائد اعظم کو ’’کافر اعظم‘‘ اور پاکستان کو ’’پلید ستان‘‘ کہا کرتے تھے۔ قائد اعظم بھی یہاں عالم بالا میں اپنے ناخلف حکمرانوں سے خائف ہیں۔ آج کے پاکستان میں تمہیں قائد اعظم جیسا کوئی لیڈر نہیں ملے گا جو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنا دے اور چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ بنا دے اور پھر چاہے ’’علماء‘‘ جتنے مرضی فتوے لگا دیں قابلیت کو مذہب پر ترجیح دے۔ عمران خان نے جب تمہیں مشاورتی کمیٹی کا رکن بنایا تو قائد اعظم بھی خوش تھے کہ پاکستان میں اب اقلیتوں کو بھی حقوق ملیں گے قابلیت کو مذہب پر ترجیح دی جائے گی لیکن یہ خوشی چند گھنٹوں سے زیادہ قائم نہ رہ سکی۔ تمہارا اور میرا قصور صرف ہمارا ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ یہ انسان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ تمہاری قابلیت سے پاکستانی بے شک فائدہ نہ اٹھائیں اس کا نقصان ان کو خود ہو گا۔ تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن تمہارے بعد یہ لوگ ویسے ہی ہاتھ مرتے رہ جائیں گے جیسے میرے بعد ۔
اپنے ساتھ بیتی نا انصافیوں اور کم ظرفی کی ایک لمبی داستان ہے جو تمہیں سنا سکتا ہوں لیکن اسی پر اکتفا کرتے ہوئے تم سے اجازت مانگتا ہوں کہ تم مایوس نہ ہونا۔ بس ان اذتیوں پر مسکرا کر یہ کہہ دینا

جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارو
یاد آئیں گے تمہیں میرے سخن میرے بعد

والسلام:

فقط ایک پاکستانی ڈاکٹر عبد السلام