توہین مذہب کا نیا پاکستانی قانون

میڈیا رپورٹس کے مطابق سینٹ میں الیکڑانک کرائمز کے حوالے سے نیا ترمیمی بل پیش کر دیا گیا ہے۔ بل کیا ہے؟ مختصر الفاظ میں یہ کہ احمدیوں پر زندگی مزید تنگ کرنے کا بہانہ ہے۔ الیکٹرانک کرامز یا مذہبی توہین کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرنے کے لئے صرف مذہبی توہین ہی نہیں بلکہ انسانی توہین کی سیڑھیاں چڑھ کر یہ بل بنایا گیا ہے۔

اس بل کی ڈرافٹنگ کرتے ہوئے جس تنگ ذہنی کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ بھی عدیم المثال ہے۔ جب بھی بل بنتے ہیں تو وہ تمام لوگوں کو مد نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں لیکن اس بل میں غیر ارادی طور پر نہیں بلکہ جان بوجھ کر احمدیوں کا نام لے کر ان کے خلاف بل پیش کیا گیا ہے۔

اب آ جائیں اس بل میں تجویز کردہ شقوں کی طرف۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ

’’ کسی طبقے کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے،مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین سے متعلق مواد پھیلانے والے کو 10سال قید اور جرمانہ ہو گا۔‘‘
کیا بل کا مسودہ تیار کرنے والے یہ بتانا پسند کریں گے کہ ’’کسی طبقے کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے ‘‘ والی شق میں احمدی بھی شامل ہیں یا نہیں؟ کیا احمدی بھی ’’کسی مذہبی طبقے‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ اگر آتے ہیں تو احمدیوں کا نام لے کر، ان کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے، اپنی عبادت گاہوں کو مساجد کہنے پر پابندی لگا کر ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچایا جا رہا؟ پھر تو سب سے پہلی سزا اس بل کے پیش کرنے والوں اور اس کو منظور کرنے والوں کو دینی چاہئے ۔ لیکن کون سزا دے۔ احمدی کونسے انسان ہیں جو ان کے مذہبی جذبات ہوں یا مذہبی احساسات ہوں!!

پھر اس مسودے کی ایک شق یہ ہے کہ
’’ حضرت محمد کے خلیفہ یا ساتھی کے علاوہ کسی کو امیر المومنین،خلیفہ یا صحابی کہہ کر مخاطب کرنے والے احمدی کو 3 سال سزا‘‘
صرف احمدی کو کیوں یہ سزا ہو؟ اگر کوئی اور ’’پکا کھرا مسلمان‘‘ یہ کام کرے تو کیا اس کو سزا نہیں ہونی چاہئے؟ اگر ہونی چاہئے تو پھر احمدیوں کا ذکر ہی کیوں کیا گیا؟ کیا باقی ’’مسلمانوں‘‘ کے ایسے کرنے سے توہین نہیں ہوتی؟

اس مسودے کی ڈرافٹنگ کرنے والے شاید تاریخ، سیاست، اسلامی تعلیم، لغت سب سے بے بہرہ ہیں۔ کیونکہ ہر ایک جانتا ہے کہ گزشتہ 1400 سال کی تاریخ میں ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ مسلمان بادشاہوں کے ساتھ استعمال ہوتا رہا۔ پھر تو آپ کو ساری کتابیں بدلنی پڑیں گی۔ بلکہ غیروں کی کتابیں چھوڑ کر اپنے ملک کی ہی نصابی کتب بدلنی پڑیں گی۔ گویا اب خلیفہ ہارون الرشید کی جگہ صرف ہارون الرشید استعمال ہوگا۔ ’’تحریک خلافت‘‘ کا نام بدل کر کیا رکھا جائے گا؟ ’’تحریک بادشاہت‘‘ یا تحریک ترکی یا کچھ اور؟سمجھ سے بالا ہے کہ کس طرح تاریخ بدلی جائے گی۔ یا پھر بل پیش کرنے والے بتا دیں کہ خلیفہ کی جگہ کیا لفظ استعمال کیا جائے۔1400 سال میں فوت شدگان لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمانوں، عالموں اور تاریخ دانوں کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ خلیفہ یا امیر المومنین کا لفظ استعمال کرنے کی پابندی ہے۔ کیونکہ تاریخ کا ادنی سا علم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ ہر مسلمان بادشاہ (خواہ وہ کتنا ہی دین سے دور ہو) اپنے لئے ’’امیر المومنین‘‘ اور ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ لگانا پسند کرتا تھا۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعد کم از کم پاکستان سے طبع ہونے والی لاکھوں کتابوں سے یہ لفظ ضرور نکال دیا جائے۔

بل کے مسودہ کے مطابق
’’ اگر کوئی احمدی اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دے اسے تین سال سزا اور جرمانہ ہو گا ۔ مسلمانوں کی جانب سے استعمال کیا جانے والے طریقہ آذان استعمال کرنے والے احمدی کو قید کی سزا،جرمانہ ہو گا۔ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے یا اپنے عقیدت کا حوالہ بطور مسلمان دے، اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنے والے احمدی کو 3سال سزا،جرمانہ ہو گا۔ جو احمدی ایسا کرنے سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو اشتعال دلوائے اسے 3 سال سزا ، جرمانہ ہو گا ۔‘‘

صرف احمدی احمدی کی ہی گردان کیوں ہے؟ اگر کوئی عیسائی مسلمانوں کے طریق کے مطابق آذان دے تو کیا اس کو سزا نہیں ہونی چاہئے؟ اور کیا دین پر کسی کے ’’کاپی رائٹس‘‘ ہیں؟ پھر تو یہود و نصاریٰ کو چاہئے کہ مسلمانوں پر ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنے کی بھی پابندی لگا دیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے ملکہ سبا کو جو خط لکھا تھا اس کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا تھا۔ پھر تو یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی کاپی رائٹس کے حقوق حاصل ہونے چاہئے۔ کیسا لگے گا کہ اگر وہ یہ پابندی لگا دیں؟

اور مذہب کے کاپی رائٹس انسانوں کے پاس کب سے آ گئے؟ کیا کوئی بتائے گا کہ عیسائیت کے کاپی رائٹس کس کے پاس ہیں؟ بلکہ یہ بھی کوئی بتانا پسند کرے گا کہ اسلام کے یہ کاپی رائٹس صرف پاکستان میں رائج اسلامی شریعت کے ہیں یا باقی ملکوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے؟ افسوس صد افسوس! احمدیوں کی دشمنی نے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ بل پیش کرنے سے پہلے سوچا اور سمجھا بھی نہیں جاتا۔ فلسطین، کشمیر، برما اور دوسرے ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رونا رونے سے پہلے کم از اپنے ملک میں ہونے والی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کا جائز لے لیں۔

عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے ’’ لكل احد ان يصطلح على ماشاء‘‘ یعنی ہر ایک کا حق ہے کہ وہ جو چاہے مرضی اصطلاح استعال کرے اور بنائے۔ بنیادی انسانی حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ ہر ایک جو چاہے اپنے آپ کو کہلوا سکتا ہے۔ اگر آپ کسی انسان کو یہ کہیں کہ تم اپنے آپ کو انسان نہیں کہہ سکتے بلکہ اپنے آپ کو کتا کہا کرو تو کیا یہ جائز مطالبہ ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ ہمارے ملک میں درجنوں مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں۔ سب ایک دوسرے کی تعریف کے مطابق ’’کافر‘‘ ہیں۔ پھر تو یہ ہونا چاہئے کہ سارے ایکدوسرے کو کہیں کہ تم اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمارے ’’اسلامی جہوریہ پاکستان‘‘ میں ایک بھی مسلمان نہ رہے۔

مسلمان کون ہے اس کا فیصلہ خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ خدارا اسے خدا کے پاس رہنے دیں۔ اور اگر اس کا فیصلہ کسی انسان نے کرنا ہے تو پھر اس کا حق صرف رسول اللہ ﷺ کو ہے۔ آپ نے جو مسلمان کی جو تعریف بیان فرمائی وہ احادیث کی سب سے مستند کتاب بخاری میں موجود ہے۔ اس میں سے ایک یہ ہے کہ ’’جو اپنے آپ کو مسلمان کہے وہ مسلمان ہے‘‘اور دوسری یہ ہے کہ ’’جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمار ذبح کیا ہوا جانور کھائے ، وہ مسلمان ہے ۔‘‘ان دونوں تعریفوں کے مطابق احمدی مسلمان ہیں۔

یا تو پاکستان کے علماء اور حکمران یہ اعلان کریں کہ نہیں ’’ہمیں رسول اللہ ﷺ کی تعریف منظور نہیں۔ ہم اپنی تعریف خود پارلیمنٹ سے متفقہ منظور کریں گے‘‘ تو پھر تو بے شک کریں لیکن اس کو پھر اسلام کا نام نہ دیں۔ کیونکہ اسلام وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو پیش کیا نہ کہ وہ جو حکمران اور علماء پیش کرتے ہیں۔

میرا ایک ہی سوال ہے سارے پاکستانی علماء اور حکمرانوں سے کہ کیا رسول خدا ﷺ کی بتائی ہوئی تعریف کو چھوڑ کر اپنی تعریف پیش کرنا توہین خدا، توہین رسالت اور توہین مذہب میں شامل ہے یا نہیں؟؟؟؟