سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے پہلے وزیر ِ خارجہ

گذشتہ چند ہفتوں سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 16 اگست کو اس مسئلہ کے بارے میں سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوا۔ اس معاملہ پر ساری بحثوں میں کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی وہ قراردادیں ایک اہمیت رکھتی ہیں جنہیں 1948 میں سلامتی کونسل نے منظور کیا تھا۔ اس وقت بھارت کی حکومت کی درخواست پر سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا تھا۔ اُس وقت بھارت کے وفد کی قیادت گوپال سوامی آینگر صاحب کر رہے تھے۔

مسٹر آینگر پانچ چھ سال ریاست کشمیر کے وزیرِ اعظم رہ چکے تھے اور آزادی کے بعد انہیں بھارتی کابینہ میں بغیر محکمہ کے وزیر کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اور پاکستانی وفد کی قیادت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کر رہے تھے جنہیں تقریباً تین ہفتہ پہلے پاکستان کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس مضمون کا مقصد ان بحثوں پر جو اُس وقت سلامتی کونسل میں ہوئیں یا سلامتی کونسل کی قراردادوں پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن جب بھی کوئی سفارتکار ایک اہم مسئلہ پر سفارتی جنگ لڑتا ہے اور بحث کرتا ہے تو اس کی کارکردگی کا اسی طرح جائزہ لیا جاتا ہے جس طرح میدانِ جنگ میں کسی جنرل کی کارکردگی کو پرکھ کر اس کی صلاحیتوں کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔

جب ہم سلامتی کونسل میں پاکستان کے پہلے وزیرِخارجہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے تین پہلو ہو سکتے ہیں۔ یہ دیکھا جائے کہ آپ کے ساتھیوں نے کس رائے کا اظہار کیا؟ دوسرے یہ دیکھا جائے کہ آپ کے مخالفین نے آپ کی صلاحیتوں کے بارے میں کیا رائے قائم کی؟ اور تیسرے غیر جانبدار مورخین نے آپ کی کاوشوں پر کیا تبصرہ کیا؟

سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھیوں کی کیا رائے تھی؟ پاکستان کے وفد میں آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد ابراہیم خان صاحب بھی شامل تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

”سلامتی کونسل کے اجلاس میں ناکامی کے بعد بھارتی مندوب سرگوپال سوامی آینگر اور شیخ عبد اللہ کے درمیان آپس میں سخت کلامی بھی ہوتی رہی۔ کیونکہ شیخ عبد اللہ صاحب سرآینگر پر الزام لگاتے تھے کہ وہ پاکستان کے مندوب اور وزیر ِ خارجہ چوہدری ظفراللہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چنانچہ بھارت کے دونوں نمائندے اسی طرح ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے نیو یارک سے نئی دہلی روانہ ہو گئے۔ “
[کشمیر کی جنگ ِ آزادی، مصنفہ سردار محمد ابراہیم خان صاحب، ناشر کلاسیک لاہور مارچ 1966 ص 196 ]

اُس وقت پاکستان کے وفد کے ایک اور رکن چوہدری محمد علی صاحب بھی تھے۔ چوہدری محمد علی صاحب بعد میں پاکستان کے وزیر ِ خزانہ اور پھر وزیراعظم بھی بنے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔

”Zafrullah Khan ’s masterly exposition of the convinced the Security Council that the problem was not simply one of expelling so called raiders from Kashmir۔ “

(Ali، C۔ M۔ ( 1965 ) ۔ The Emergence of Pakistan۔ Lahore، Pakistan: Research Society of Pakistan۔ P۔ 301 )

ترجمہ: ظفر اللہ خان کے ماہرانہ تجزیے نے سلامتی کونسل میں اس بات کو منوا لیا کہ مسئلہ صرف ان نام نہاد حملہ آوروں کو کشمیر سے نکالنے کا نہیں تھا۔

آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد یوسف صراف صاحب تحریر فرماتے ہیں :

”۔ the brilliant role played by the Pakistani delegation headed by Sir Zafrullah has to be looked at۔ Sir Zafrullah ’s excellent exposition of our case which resulted in deceitful and Machiavellian complaint in her proper place۔ the dock، has won him a pride of place in the history of Pakistan۔ Kashmiris will gratefully cherish his memory، generation after generation۔ “
(Saraf MY ( 1971 ) Kasmiris Fight۔ For Freedom Vol 2، Lahore، Pakistan: Ferozsons۔ P 1050 )

ترجمہ: سر ظفر اللہ کی قیادت میں پاکستان کے وفد نے جو شاندار کردار ادا کیا، اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ سر ظفراللہ نے جس شاندار طریق پر ہمارے مقدمے کی تفصیلات پیش کیں، اس نے دھوکہ دینے والی اور میکاولین انداز کی شکایت کو اس کے صحیح مقام یعنی ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اس نے انہیں پاکستان کی تاریخ میں ایک قابل ِ فخر مقام دلا دیا اور کشمیری نسل در نسل احساس ِتشکر کے ساتھ ان کو یاد کریں گے۔

مشہور کشمیری لیڈر شیخ عبد اللہ صاحب بھارتی وفد کے ایک اہم ممبر تھے۔ وہ لکھتے ہیں :

”سر ظفر اللہ ایک ہوشیار بیرسٹر تھے۔ انھوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کر کے ہماری محدود سی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا اور ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے سارے پُر آشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک ہی محدود رکھتا۔ لیکن وہ سر ظفر اللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا۔ “
[آتش ِ چنار مصنفہ شیخ عبد اللہ صاحب، پبلشر علی اینڈ سنز سری نگر 1986 ص 473 ]

پروفیسر بال راج مادھوک جو کہ دو مرتبہ بھارتی پارلیمنٹ کے رکن رہے اور ان کا تعلق بھی کشمیر سے تھا لکھتے ہیں :

”No wonder therefore that the statements and speeches made by him on different occasions as also the statements and speeches of Pt۔ Nehru provided Zafarullah with the stick to beat India with۔ “

(Kasmir The Storm Centre of the world، by Bal Raj Madhok، p 53 )

ترجمہ: پھر اس میں کیا تعجب ہے کہ انہوں نے [یعنی شیخ عبد اللہ صاحب نے ] مختلف مواقع پر جو بیانات دیے تھے اور تقایر کی تھیں اور پنڈت نہرو کے بیانات اور تقاریر نے ظفر اللہ کے ہاتھ میں وہ چھڑی پکڑا دی تھی جس سے وہ ہندوستان کے پٹائی کرتے رہے۔

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ غیر جانبدار مورخین نے کیا رائے دی ہے۔ امریکی مورخ پروفیسرسٹینلے وولپورٹ [Stanley Wolpert] جو کہ برصغیر کے تاریخ پر ایک سند ہیں اور بہت سی کتب کے مصنف تھے،اور اسی سال ان کا انتقال ہوا ہے، قائد ِ اعظم کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں :

” Jinnah had no strength to fly to New York for UN debate on India and Pakistan، but foreign minister Sir Muhammad Zafrullah Khan performed brilliantly as Pakistan ’s advocate before the Security Council; he was judicious، articulate often eloquent in presenting his case while refuting India‘ s charges۔ “

(Wolpert S ( 2006 ) ۔ Jinnah of Pakistan۔ Karachi، Pakistan: Oxford University Press p 357 )

ترجمہ: جناح کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ پاکستان اور بھارت کے معاملہ میں بحث کے لئے نیویارک کا سفر کر سکیں لیکن پاکستان کے وزیر ِ خارجہ نے پاکستان کے وکیل کی حیثیث سے بڑی ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ وہ مدبرانہ، سلیس اوراکثر فصیح انداز میں ہندوستان کے الزامات کو رد کرتے رہے۔

ایچ وی ہڈسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

”The Indian Government، however، was grievously disappointed by the reception of its appeal to the Security Council، which it had naively hoped would at once take India ’s part، without reserve، as the victim of aggression۔ Its representatives proved no match، as a contending council، for Pakistan‘ s Sir Muhammad Zafrullah Khan۔ “

(Hodson H۔ V۔ ( 1969 ) ۔ The Great Divide۔ London، UK: Hutchinson & Co)

ترجمہ:جس طرح ہندوستان کی اپیل کو سلامتی کونسل میں سنا گیا، اُس سے ہندوستان کی حکومت کو سخت مایوسی ہوئی۔ ان کی بچگانہ سوچ تھی کہ سلامتی کونسل فوراً بغیر کسی جھجک کے ہندوستان کی حمایت کرتے ہوئے، اس کو جارحیت کا نشانہ قرار دے گی۔ لیکن اُس کے نمائندے پاکستان کے سر محمد ظفر اللہ خان کے مقابلے کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔

سیاسی معاملہ میں ہر کسی کو اختلاف یا اتفاق کا حق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن یہ مرحلہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور اس حوالے سے اسے یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔