ایران (ربوہ ٹائمزنیوز ڈیسک) امریکہ کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے سعودی تنصیبات پر حملے کے بعد سعودی عرب کے حقِ دفاع کی حمایت کیے جانے پر ایرانی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک پر کسی بھی حملے کو کھلی جنگ تصور کیا جائے گا۔
ایران کے وزیرِ خارجہ نے یہ بات اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو کے اس بیان کے بعد کہی ہے کہ سعودی تنصیبات پر حملہ ایک جنگی اقدام تھا اور ایران کے اقدامات ناقابلِ برداشت ہیں اور یہ کہ امریکہ سعودی عرب کی خام تیل کی تنصیبات پر حالیہ حملوں کے بعد اس کے حقِ دفاع کی حمایت کرتا ہے۔
جمعرات کو امریکی چینل سی این این سے بات کرتے ہوئے جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ‘میں ایک انتہائی سنجیدہ بیان دے رہا ہوں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم کسی عسکری تنازع میں الجھنا نہیں چاہتے مگر ہم اپنے علاقے کا دفاع کرنے کے لیے آنکھ بھی نہیں جھپکیں گے۔’
ایرانی وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اور ان کے حامیوں کے سعودی تیل کی تنصیبات کے حوالے سے ایران پر الزامات امریکی صدر کو ایک جنگ میں دھکیلنے کی کوشش بھی ہوسکتے ہیں۔
ٹوئٹر پر ایک پیغام میں انھوں نے کہا کہ ‘جنگی کارروائی یا جنگ کے لیے کوششیں؟ بی ٹیم اور ان کے برعزم ساتھی ڈونلڈ ٹرمپ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
ماضی میں جواد ظریف نے بی ٹیم کی اصطلاح اسرائیلی وزیراعظم نتم یاہو اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے استعمال کی ہے۔
"Act of war"or AGITATION for WAR?
Remnants of #B_Team (+ambitious allies) try to deceive @realdonaldtrump into war.
For their own sake, they should pray that they won't get what they seek.
They're still paying for much smaller #Yemen war they were too arrogant to end 4yrs ago.
— Javad Zarif (@JZarif) September 19, 2019
مائیک پومپیو بدھ کو سعودی حکام سے ملاقات کے لیے ریاض پہنچے تھے اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ تھا کہ ایران کے اقدامات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا اور تیل تنصیبات پر حملے نہ صرف سعودی عرب بلکہ امریکی شہریوں اور دنیا میں تیل کی رسد کے لیے بھی خطرہ تھے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ یہ بات یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ تیل کی تنصیبات پر حملوں کے پیچھے ایران کا ہی ہاتھ تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ جوابی اقدام کے لیے امریکہ کے پاس ’بہت سی آپشنز‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک آخری آپشن ہے اور پھر کچھ اس سے کم درجے کے آپشنز ہیں۔ ہم دیکھیں گے، ہماری پوزیشن بہت مضبوط ہے۔‘
بدھ کو ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے امریکی وزیرِ خزانہ سے ایران پر عائد پابندیوں میں مزید سختی اور اضافے کے لیے بھی کہا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کی ’اشتعال انگیز معاشی جنگ‘ کی مذمت کی ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ امریکہ کا مقصد جان بوجھ کر ایرانی عوام کو نشانہ بنانا ہے۔
یاد رہے کہ سنیچر کو سعودی عرب میں بقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی ‘آرامکو’ کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں دنیا میں تیل صاف کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ بھی متاثر ہوا اور جہاں کمپنی کی نصف پیداوار معطل ہو گئی وہیں تیل کی عالمی رسد میں کمی آئی ہے۔
سعودی عرب کے ’شواہد‘
امریکہ کے بعد سعودی عرب نے بھی بدھ کو ایران پر براہِ راست ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
ایران اس قسم کی کسی کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کر رہا ہے اور اس نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی حملے کی صورت میں وہ جواب دے گا۔ اس سے پہلے ہی یمن میں ایران کے حامی حوثی باغی کہہ چکے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے وہ ہیں۔
سعودی وزارت دفاع کے حکام نے ایک پریس کانفرنس میں کچھ ڈرونز اور کروز میزائلوں کے ملبے کی نمائش کی اور دعویٰ کیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملے میں ایران ملوث ہے۔
سعودی حکام کا کہنا تھا کہ تنصیات پر 18 ڈرونز اور سات کروز میزائلوں سے حملہ کیا گیا اور وہ یمن کی جانب سے نہیں داغے گئے۔
وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے بتایا کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حملہ شمال کی جانب سے کیا گیا اور بلاشبہ اس کی مدد ایران نے کی۔
تاہم کرنل مالکی نے کہا کہ سعودی حکام اب بھی اس چیز کے تعین پر کام کر رہے ہیں کہ حملے کا اصل مقام کیا تھا۔
ملبے میں ایک ڈرون کا پر بھی دکھایا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایرانی ڈرون کا ڈیلٹا پر ہے۔ کرنل مالکی کا کہنا تھا کہ ’ڈرون پر موجود کمپیوٹرز سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی ہے۔
کرنل مالکی نے کہا کہ بقیق میں واقع تنصیبات پر 18 ڈرونز سے حملہ کیا تھا جبکہ دونوں مقامات پر سات کروز میزائل بھی داغے گئے جن میں سے چار نے خریص آئل فیلڈ کو نشانہ بنایا جبکہ تین بقیق سے کچھ پہلے گرے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام میزائل شمال سے آئے تھے۔ انھوں نے ایک ڈرون کی ویڈیو بھی دکھائی جس نے بقیق کو نشانہ بنایا۔ اس موقع پر تباہی اور نقصانات کو تصاویر اور نقشوں کی مدد سے دکھایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ خریص میں کروز میزائل کے درست حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ایران کے پراکسی (حوثی باغی) نہیں کیونکہ ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔
کرنل مالکی نے یہ بھی کہا کہ ابھی یہ تفصیل نہیں دی جا سکتی کہ حملہ کس جگہ سے کیا گیا، یہ جیسے ہی واضح ہو گا اس کے بارے میں بتایا جائے گا۔
امریکی دعویٰ
سعودی حکام کے اعلان کے برعکس امریکی حکام چند روز قبل دعویٰ کر چکے ہیں کہ امریکہ نے ایران میں اس مقام کا پتہ چلا لیا ہے جہاں سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرونز اور کروز میزائل داغے گئے تھے۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ یہ مقام جنوبی ایران میں خلیج کے شمالی سرے پر واقع ہے۔
اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ سعودی ایئر ڈیفنس نے ڈرونز اور میزائلوں کو نہیں روکا کیونکہ ان کا رخ یمن کے حملوں کو روکنے کے لیے جنوب کی جانب تھا۔
تیل کی عالمی منڈی پر اثرات
سعودی عرب میں سنیچر کو تیل کی تنصیبات پر حملوں کا اثر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر دیکھنے میں آیا تھا اور جہاں پیر کو بازار کھلتے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گذشتہ چار ماہ کی بلند ترین سطح کو جا پہنچی تھی
بلوم برگ کے مطابق ایک دن کے کاروبار میں یہ 1988 کے بعد ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
سعودی تنصیبات کے مکمل طور پر بحال ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں اور ان حملوں کی وجہ سے تیل کی عالمی رسد میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی آ گئی تھی۔