ریاض (ربوہ ٹائمز) سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے خبردار کیا ہے کہ سعودی تیل تنصیبات پر حالیہ حملوں کے بعد اگر دنیا مل کر ایران سے منسلک خطرات کا مقابلہ نہیں کرتی تو تیل کی قیمتوں میں ’ناقابلِ یقین حد تک‘ اضافہ ہو سکتا ہے
یہ بات انھوں نے سی بی ایس کے پروگرام 60 منٹس میں ایک انٹرویو میں کہی۔
انھوں نے اس انٹرویو میں گذشتہ برس استنبول میں سعودی سفارتخانے میں قتل کیے جانے والے صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت میں براہِ راست ملوث ہونے سے ایک مرتبہ پھر انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور سعودی رہنما اس قتل کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
ایران کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ‘اگر دنیا ایران کو روکنے کے لیے مضبوط اور جامع اقدامات نہیں لیتی تو اس طرح کے مزید حملوں سے تیل کی سپلائی تعطل کا شکار ہو سکتی ہے اور تیل کی قیمتوں میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہو سکتا ہے (ایسا اضافہ) جو ہم نے اپنی زندگیوں میں کبھی نہیں دیکھا۔‘
خیال رہے کہ رواں ماہ سعودی عرب میں بقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی ‘آرامکو’ کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں دنیا میں تیل صاف کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ بھی متاثر ہوا تھا۔
یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ دوسری جانب سعودی عرب اور امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی جبکہ ایران نے ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی تھی۔
محمد بن سلمان نے سخت الفاظ میں ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کو ایک ‘حماقت’ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے نزدیک یہ حماقت تھی۔ ان کا کوئی سٹرٹیجک مقصد نہیں تھا۔ کوئی احمق ہی دنیا کی پانچ فیصد تیل سپلائی پر حملہ کرے گا۔ ان کا مقصد صرف اپنے آپ کو احمق ثابت کرنا ہے اور وہ انھوں نے کیا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان سے متفق ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ایران نے جو کیا ہے وہ ایک ‘جنگی اقدام’ ہے۔
تاہم ایران کے خلاف جوابی کارروائی کے حوالے سے محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی ایران کے ساتھ جنگ ’دنیا کی معیشت کی تباہی‘ کے مترادف ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تیل تنصیبات پر حملوں کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔‘
اپنے انٹرویو میں سعودی ولی عہد نے اس بات سے انکار کیا کہ انھوں نے ایک سال قبل سعودی حکام کو صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ وہ بطور رہنما اس قتل کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
سعودی شہزادے پر الزام ہے کہ انھوں نے جمال خاشقجی کو ذاتی طور نشانہ بنایا کیونکہ وہ سعودی حکومت پر تنقید کرتے تھے۔
جمال خاشقجی کو گذشتہ سال اکتوبر میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ تاہم محمد بن سلمان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس آپریشن سے مکمل طور پر لاعلم تھے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک سنگین جرم تھا۔ میں خاص طور پر سعودی عرب کے ایک رہنما ہونے کی حیثیت سے اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں کیونکہ اس جرم کا ارتکاب ان افراد نے کیا جو سعودی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔‘
محمد بن سلمان نے وعدہ کیا کہ اس حوالے سے تفتیش عہدوں کو بالائے طاق رکھ کر کی جائے گی۔ تاہم خیال رہے کہ اس حوالے سے اب تک ان کے پرانے ساتھی ال قحطانی کو شاملِ تفتیش نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’جب کسی سعودی شہری کے خلاف سرکاری حکام کی جانب سے جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو بطور رہنما مجھے ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ یہ ایک غلطی تھی۔ اور مجھے اس حوالے سے ہر ممکن اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔‘
محمد بن سلمان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ سعودی حکومت کے لیے کام کرنے والے تیس لاکھ افراد روزانہ کیا کرتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے کہ میں تیس لاکھ لوگ روزانہ سعودی حکومت کے رہنما یا ولی عہد کو رپورٹس بھیجیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ میں نے ذاتی طور پر خاشقجی کو نشانہ بنایا تھا تو ان شواہد کو سامنے لانا چاہیے۔
’میں امید کرتا ہوں کہ ایسی کوئی بھی معلومات سامنے لائی جائیں گی۔ اگر ایسی کوئی معلومات ہیں جو مجھے مورد الزام ٹھہراتی ہیں تو انھیں سامنے لانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی صحافی وحشیانہ طور پر قتل کیے جانے کا حقدار نہیں ہے۔
’ہمیں کسی صحافی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کو خطرہ سعودی صحافیوں کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات سے ہے۔ یہ سنگین جرم جو سعودی قونصل خانے میں کیا گیا۔‘
سعودی شہزادے نے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے ایک سوال میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس حوالے تشدد کے الزامات کی تفیش کریں گے۔