چناب نگر ( نامہ نگار) آج گورنمنٹ پوسٹ گریجوئیٹ ٹی آی کالج میں پروفیسر سلیم اختر ڈھیر ہ کی کتاب “ کہانی آوارہ ہوتی ہے” کی تعارفی تقریب منعقد ہوئ ، جس میں تمام پروفیسرز نے شرکت کی۔
پروفیسر سلیم اختر ڈھیرہ شعبہ انگریزی کے صدر ہیں اور ایک عرصہ سے انگریزی زبان اور ادب کی ترویج اور تدریس سے وابسطہ ہیں۔اس سے پہلے ان کی انگریزی شاعری کی کتاب پیل لیفز "pale leaves” شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے ۲۰۰۷ میں “نیشنل ایوارڈ براۓ انگریزی ادب “سے نوازا گیا اور حکومتِ چین کی جانب سے اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ چین مدعو کیا گیا۔
پروفیسر سلیم اختر ڈھیرہ کی یہ دوسری کتاب ہے جو اطالوی لوک کہانیوں کے تراجم ہیں ۔ اس کتاب میں تیس کہانیاں ہیں اور مثال پبلیشر فیصل آباد نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا انتساب “خورشید بی بی “ کے نام ہے جو پروفیسر سلیم اختر ڈھیرہ کی والدہ ہیں ۔وہ انہیں بچپن میں کہانیاں سنایا کرتیں تھیں جن سے ان کی کردار سازی کے خد وخال مکمل ہوۓ۔ پچھلے سال جب انکی والدہ کا انتقال ہوا تو کچھ عرصہ کے بعد انکے ذہن میں ایک خیال آیا کہ جن کی مائیں نہیں ہو تیں ، انکو کہانیاں کون سناتا ہو گا ؟ یہ خیال اس کتاب کی تخلیق کا سبب بنا۔
پروفیسر علی عمران شاہ نے کہا کہ کہانیاں سادہ انداز بیان میں لکھی گیں ہیں۔ تسلسل ،روانی اور بر موقع اشعار نے کہانیوں کو “انٹر ٹینمنٹ” بنا دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہر کہانی ایک سبق لۓ ہوے ہے جو قاری کے لاشعور میں سرایت کر جاتا ہے اور رہنمائ کا باعث بنتا ہے۔
پروفیسر وقار حسین نے بتایا کہ اردو میں روسی، جرمن، فرانسیسی ، کورین، ایرانی ، جاپانی کہانیوں اور افسانوں کے تراجم تو وافر دستیاب ہیں مگر اطالوی لوک کہانیوں کے اردو ترجمہ کی شاید یہ پہلی کتاب ہے۔
پرنسپل سید ضیاء الحسنین شاہ نے کہا کہ ہمیں تو اٹلی کے ویسپا ، پیزا اور نوڈل کا ہی تعارف تھا ۔ اب اٹلی کی کہانیوں سے بھی شناسائ ہو گی ہے۔ تقریب کے اختتام پر ہر پروفیسر کو ایک ایک کتاب تحفہ میں دی گی۔