پاکستان میں امریکی شہری کے قتل پر امریکہ کی سخت مذمت، قاتل کے خلاف فوری کاروائی کا مطالبہ

نیویارک (ربوہ ٹائمز) 57 سالہ طاہر احمد نسیم گزشتہ روز ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران دلائل کے بعد بیٹھے تھے اور جیل منتقلی کا انتظار کر رہے تھے جب انہیں قریب سے متعدد گولیاں ماری گئیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘ہم امریکی شہری طاہر نسیم کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں، جنہیں پاکستان کی کمرہ عدالت میں قتل کردیا گیا۔’

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ‘ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری کارروائی کرے اور دوبارہ ایسے شرمناک سانحات کی روک تھام کے لیے اصلاحات کرے۔’
حکام و عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز جب جج کے سامنے طاہر نسیم کے خلاف چارجز پڑھ کر سنائے جارہے تھے اس وقت وہاں موجود ایک نوجوان نے پستول نکالی اور طاہر کے سر پر گولی ماری۔

19 سالہ حملہ آور کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اس کی پستول قبضے میں لے لی گئی تھی۔

واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں مقتول کو عدالت کی نشست پر خون میں لت پت دیکھا گیا۔

ویڈیو میں ملزم کو پولیس کی حراست میں بھی دیکھا گیا اور وہ لوگوں کو بتا رہ تھا کہ طاہر توہین مذہب و رسالت کا ملزم تھا۔

پولیس ملزم سے اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ وہ اتنی سیکیورٹی کے باوجود پشاور جوڈیشل کمپلیکس میں پستول کیسے لے کر آیا اور کیا کسی نے اسے قتل کے لیے اکسایا۔

حملہ آور کے خلاف ایسٹ کینٹ تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، انسداد دہشت گردی قانون کی دفعہ 7 اور آرمی ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

درخواست پر دلائل کے بعد جج سید شوکت اللہ شاہ نے سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔

طاہر نسیم کے خاندان سے رابطہ رکھنے والے ایک ذرائع نے بتایا تھا کہ مقتول اپنے اہلخانہ کے ہمراہ امریکا میں مقیم تھے اور سوشل میڈیا پر چند لوگوں سے تعلق قائم ہونے کے بعد 2018 میں پاکستان آئے تھے۔

ان لوگوں نے مقتول کو اپنے عقیدے کی دعوت کے لیے پاکستان آنے کی ترغیب دی تھی۔

طاہر نسیم کے خلاف 25 اپریل 2018 میں سربند تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 153۔اے، 295۔اے، 295۔بی، 295۔سی اور 298 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ان کے خلاف پولیس میں شکایت نوشہرہ کے رہائشی و اسلام آباد میں مدرسے کے طالب علم ملک اویس نے درج کروائی تھی۔

طاہر نسیم پر 4 فروری 2019 کو دفعات 153۔اے، 295۔اے اور 298 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی، جبکہ ان کے خلاف چارج شیٹ میں دفعات 295۔بی اور 295۔سی کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ملزم نے ان چارجز کو مسترد اور اپنے دفاع کا فیصلہ کیا تھا۔