(ویب ڈیسک)پانی زندگی کی علامت ہے۔ کرہ ارض پر اس نعمت کی موجودگی ہماری اور تمام جانداروں کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔ پانی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس سے زندگی ہی نہیں بلکہ صنعت، زراعت اور معیشت سمیت دیگر تمام شعبہ جات کا پہیہ رواں دواں ہے۔ حالیہ برسوں میں ہونے والی تیز رفتار سائنسی ترقی ، بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور دیہات میں سیوریج کے نظام کی کمزوریوں نے پینے کے صاف پانی تک انسانوں کی رسائی کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ جس سے صحت سمیت دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین جہاں اس وقت دیہی آبادی میں غربت کے خاتمے کی جنگ ایک کلیدی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور یہاں اس میدان میں ہر روز کلیدی کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں۔ حالیہ دنوں غریب دیہی رہائشیوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی راہ میں ایک شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اکیس اگست کو چین کی ریاستی کونسل کے دفتر اطلاعات کی جانب سے منعقدہ ایک نیوز بریفنگ میں بتایا گیا کہ چین کے موجودہ معیار کے مطابق ملک کے تمام غریب رہائشیوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ مکمل طور پر حل کر لیا گیا ہے۔ بریفنگ کے دوران چین کی وزارت آبی وسائل کے متعلقہ اہل کار نے بتایا کہ چین کے دیہات میں پینے کے پانی کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے سال 2006 کے بعد سے متعقلہ ادارے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں اور ان اداروں کی شب و روز کاوشوں اور کٹھن محنت کے بعد ملک بھر کے پچیس کروڑ ساٹھ لاکھ دیہی افراد کے لیے پینے کے صاف اور معیاری پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انتہائی غربت کے شکار ایک کروڑ اکہتر لاکھ لوگوں کے لیے پینے کے صاف اور معیاری پانی کی فراہمی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کر دیا گیا ہے۔ چین کے غربت کے شکار علاقوں خصوصاً دیہات میں پینے صاف پانی کی فراہمی کے لئے سخت جدو جہد کی گئی ہے اگر ہم چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کی بات کریں تو وہاں کی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے جاری ورکنگ رپورٹ کے مطابق دو ہزار انیس میں سنکیانگ کی مقامی حکومت نے انتہائی غربت پر توجہ دیتے ہوئے غربا کی امداد کےلیے مختلف اقدامات اختیار کئے اور اس مد میں سینتیس ارب چھپن کروڑ ستر لاکھ چینی یوان خرچ کئے گئے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال رہائشی مکانات اور میٹھے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھر پور کوشش کی گئی اور اس کے نتیجے میں نو ہزار تین سو چھپن غربت کا شکار ہونے والے خاندانوں کو نئے گھروں میں منتقل کیاگیا ۔ اور تین لاکھ چھیالیس ہزار غربا کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی حل کر دیا گیا۔ سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کے رہائشی 43 سالہ یوسف قیوم نے ایک انٹرویو میں پینے کے پانی کے حوالے سے اپنے بچپن کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صاف پانی واقعی ایک بڑی نعمت ہے۔ بیس برس قبل ان کے گاؤں میں پینے کے پانی تک رسائی کا واحد ذریعہ ایک تالاب تھا جو اکثر کائی اور درختوں سے ٹوٹے ہوئے پتوں سے اٹا رہتا تھا۔ پتوں کے گلنے سڑنے سے پیدا ہونے والی بدبو وہ ہمیشہ اپنے پینے کے پانی میں ابالنے کے باوجود محسوس کیا کرتے تھے۔ یوسف آج کل سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کے شہر کاشغر میں دیہاتیوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے کے نگران ہیں۔ یوسف اس خطے کے جنوبی علاقے میں پیدا ہوئے جو اکثر خشک سالی کا شکار رہتا تھا۔ جہاں صاف پانی کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف تھی۔ان کے بچپن میں اس خطے کے لوگوں نے پینے کے لئے بارش ، برف باری یا سیلابی پانی پر انحصارکیا۔ وہ اس پانی کو کپڑے کی مدد سے چھانتے اور ریت، پتوں اور کیڑوں کو پانی سے علیحدہ کرتے تھے۔ یہ پانی نہ صرف گندا تھا ، بلکہ مٹی کی وجہ سے اکثر کڑوا اور نمکین بھی ہو جاتا تھا۔ کاشغر کی آدھی سے زیادہ زمین الکلی مٹی پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی پینے کے قابل نہیں تھا۔ دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی حفاظت اور فراہمی مقامی حکومت کے ایجنڈے پر اولین ترجیح رکھتی ہے۔اور غربت کے خلاف جاری مہم کا حصہ بھی ہے۔ اس منصوبے کے تحت پیزاوات شہرو میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے پچھلے سال شروع ہونے والے ایک اہم منصوبے پر ایک اعشاریہ سات بلین یوآن کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔ اس منصوبے میں پینے صاف پانی کی تین کاؤنٹیوں تک فراہمی کے لئے اٹھار ہ سو کلومیٹر طویل پائپ لائن بھی بچھائی گئی۔ اس منصوبہ سے سنکیانگ میں تمام گھرانوں تک بذریعہ نل پینے کے صاف پانی کی دستیابی کو یقینی بناتا ہے۔یوسف کے مطابق اب سنکیانگ میں نل کا پانی بوتل کے پانی سے بھی اچھا ہے۔