نیو یارک (ربوہ ٹائمز) جماعت احمدیہ کے نشریاتی ادارے کے مطابق کچھ وز قبل پاکستان کے معروف اینکر عمران خان کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی۔ اس ویڈیو میں انہوں نے جماعت احمدیہ پر کچھ معین الزامات لگائے اور ان کی تائید میں سکرین پر کچھ حوالے بھی دکھائے۔ جہاں تک پاکستان میں جماعت احمدیہ پر الزامات لگانے کا تعلق ہے تو اس کے لئے کسی پس منظر کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی موسم مقرر ہے۔ جس طرح تھور کا پودا سارا سال کانٹے پیدا کرتا رہتا ہے، اسی طرح پاکستان میں جماعت احمدیہ پر الزام لگانے کا کاروبار ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ لیکن یہ ویڈیو ایک خاص پس منظر میں جاری کی گئی ہے۔
نشریاتی ادارے کے مطابق. یہ پس منظر بیان کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہےکہ اس مضمون کا مقصد کسی سیاسی بحث میں الجھنانہیں ہے۔ ہر ملک کے لیڈر جو اقدامات اُٹھاتے ہیں اس کے لئے وہ اپنے ملک کے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں صرف اینکر عمران خان صاحب کے الزامات کا تجزیہ پیش کیا جائے گا۔ مختلف ممالک نے جو اقدامات اٹھائے وہ کیوں اُٹھائے ؟اور ان ممالک نے کے رہنے والوں نے اپنے لئے جو راستہ پسند کیا وہ کیوں کیا؟ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔صرف چند حقائق پیش کئے جاتے ہیں۔
نشریاتی ادارے نے جماعت احمدیہ کا مزید موقف بتاتے ہوئے لکھا کہ: چند روز قبل متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس ملک سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ فلسطین کے لیڈروں اور عوام نے اس قدم پر شدید تنقید کی۔ چونکہ پاکستان کے ایک بہت بڑے طبقے میں اسرائیل کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے اس لئے اس قدم کا رد عمل پیدا ہونا ایک قدرتی بات تھی۔ اس کے علاوہ کئی ماہ سے پاکستان کی کوشش تھی کہ کشمیر کے مسئلہ پر مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے لیکن سعودی عرب اور بعض اَور عرب ممالک اس مطالبے کی تائید نہیں کر رہے تھے۔ اس لئے اب تک یہ اجلاس منعقد نہیں ہو سکا۔
چند روز پہلے پاکستان کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں اس بات پر اظہار ناراضگی کیا تو سعودی عرب نے پاکستان کو دیا گیا قرضہ واپس مانگ لیا اور قرض پر تیل مہیا کرنے کی جو سہولت مہیا کی تھی وہ بھی ختم کر دی گئی۔ ان واقعات کے نتیجہ میں پاکستان کے عوام میں غم و غصہ پیدا ہونا ایک قدرتی بات تھی۔اس غم و غصہ کے پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ چند ماہ پہلے ہی پاکستان کے وفاقی وزیر فواد چوہدری صاحب نے یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان کی جو فرقہ وارانہ جماعتیں ہیں ان سب کو باہر سے مالی مدد مل رہی اور اس سلسلہ میں فواد چوہدری صاحب نے عرب ممالک کا نام بھی لیا تھا۔ اور کئی سال قبل پاکستانی اخبارات میں یہ خبر شائع ہو چکی تھی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں نے ہزاروں مدارس کو ہر سال سو ملین ڈالر کے قریب کی مالی مدد دے رہے ہیں[روزنامہ ڈان 21؍ مئی 2011ء]۔ اور ان مدارس سے جہاد کی فرضیت کے بارے میں سب سے زیادہ اعلانات کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اب یہ عام بحث ہو رہی تھی کہ جب کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے آواز بلند کر نے کا وقت آیا تو ان ممالک نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہ سیاسی جماعتیں اور دوسرے ممالک سے امداد یافتہ مدارس جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سب سے نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
نشریاتی ادارے نے مزید لکھا کہ :
جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہو رہی ہو تو بعض حلقے یہ آزمودہ نسخہ تجویز کرتے ہیں کہ مخالفت کا رخ کسی اَور طرف پھیر دو۔ اور پاکستان میں احمدیوں پر الزام لگانا سب سے آسان سمجھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں اینکر عمران خان صاحب کی ویڈیو سامنے آئی اور دو دن میں تین لاکھ سے زائد افراد اسے دیکھ چکے ہیں۔ کسی تجزیہ کو پیش کرنے سے قبل انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ اس ویڈیو میں عمران خان صاحب نے کیا فرمایا تھا؟
جب یہ ویڈیو شروع ہوتی ہے تو سکرین پر لکھا ہوا نظر آتا ہے ’’اسرائیلی فوج میں کتنے پاکستانی؟ یہودی پروفیسر کے حیرت انگیز انکشافات۔پاکستان کے خلاف صیہونی سازش۔‘‘ یہ الفاظ دیکھنے والوں کو چونکا دینے کے لئے کافی ہیں۔ اس ویڈیو کے آغاز میں عمران خان صاحب نے کہا کہ یہ الفاظ پڑھ کر آپ حیران ہوگئے ہوں گے اور ان الفاظ میں گفتگو جاری رکھی
’’ایسے ہی جب یہ خبر میرے پاس پہنچی تو میں بھی بہت زیادہ حیران ہو گیا تھا۔ میرے ایک دوست ہیں انہوں نے مجھے یہ بھجوایا۔یہ ایک آرٹیکل ہے اور اس میں ایک کتاب کا حوالہ ہے۔اور اس کے اندر جو مین خبر ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی جو ہیں وہ اسرائیلی فوج میں کام کر رہے ہیں۔میرےلئے چونکا دینے والی چیز تھی۔اس لئے میں نے اس کو detailسے پڑھا اور اس کے جو referencesہیں انہیں انٹرنیٹ سے حاصل کیا۔
جب تفصیل کے ساتھ ساری چیزیں دیکھیں تو مجھے پتہ چلا کہ situationکیا ہے؟ اصل کہانی کیا ہے؟ یہ لنڈن پوسٹ میں آرٹیکل چھپا تھا……اسرائیل میں دراصل ایک کتاب چھپی تھی چند سال پہلے۔ یہ کتاب جو ہے یہودی پروفیسر جو ہے اس نے اس کتاب کو لکھا تھا۔I T Naamiاس کا نام یا اسرائیلی اسے نعمانی بھی کہتے ہیں۔ تو یہ ایک پروفیسر نعمانی ہیں جنہوں نے اس کتاب کو لکھا۔اور اس کتاب کے اندر اس نے بتایا کہ پاکستانی فوج سے زیادہ اسرائیل کی فوج میں ایک خاص sectکے پاکستانی ہیں اور وہ ہیں قادیانی۔ یعنی جو قادیانی ہیں وہ پاکستان کی فوج میں اتنے نہیں ہیں جتنے اسرائیل کی فوج میں ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا۔اس کتاب میں ایک چیپٹر ہے Religion in Holy Land۔یہ ہولی لینڈ کہتے ہیں یروشلم کو یا اسرائیل کو ہولی لینڈ کہتے ہیں پاک سرزمین اس کو کہتے ہیں۔یہاں پہ جو مذاہب ہیں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا۔ یہ ایک چیپٹر ہے اس کا صفحہ نمبر 75 اگر آپ کھولیں تو یہ صفحہ میں آپ کو دکھا بھی رہا ہوں۔ تو اس صفحہ پر آپ کو یہ سب کچھ تفصیل سے لکھا ہوا مل جائے گا۔اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ پاکستان کی فوج سے زائدہ اس وقت اسرائیل کی فوج میں قادیانی بھرتی ہیں جن کی تعداد چھ سو سے زائد ہو سکتی ہے۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ ایک سے زائد مرتبہ ان پروفیسر صاحب کی کتاب Israel: A Profile کا صفحہ نمبر 75 بھی دکھایا گیا ہے تاکہ دیکھنے والے یہ یقین کر لیں کہ یہ صاحب جو کچھ فرما رہے ہیں صحیح فرما رہے ہیں۔ الزام کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی احمدی اسرائیل جا کر وہاں کی فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔ اور یہ ایک عظیم سازش ہے جس کا انکشاف عمران خان صاحب نے فرمایا ہے۔ اور قانون کی رو سے پاکستان کے شہری اسرائیل نہیں جا سکتے۔ اور اس کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ چند سال پہلے ہی اسرائیل کے ایک پروفیسر نے اپنی کتاب میں اس کا انکشاف کیا ہے۔اس کے بعد اس ویڈیو میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ احمدی تو پاکستان کی فوج میں بھی شامل ہیں ۔ اسرائیل کی فوج میں شامل احمدیوں اور پاکستان کی فوج میں شامل احمدیوں میں روابط ہوں گے۔ اور اس سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
اب ہم حقائق کی روشنی میں ان دعووں کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔عمران خان صاحب نے یہ کہہ کر سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ یہ کتاب چند سال قبل شائع ہوئی ہے۔تاکہ تاثر پڑے کہ تازہ تازہ انکشاف پیش کیا جا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب آج سے 48 سال قبل Paegner Publicationنے نیویارک اور لندن سے شائع کی تھی۔ اور اُس وقت عمران خان صاحب کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ غالباََ سنسنی میں اضافہ کرنے کے لئے یہ بیان کیا گیا کہ یہ کتاب چند سال پہلے شائع ہوئی تھی۔
جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ ان صاحب نےفرمایا کہ پاکستانی احمدی بڑی تعداد میں اسرائیل کی فوج میں داخل ہو رہے ہیں۔ اور اس کے ثبوت کے طور پر Israeil T. Naamaniکی کتاب Israel: A Profileکا صفحہ نمبر 75 کا حوالہ دیا بلکہ سکرین پر بھی دکھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کے صرف اس صفحہ پر احمدیوں کا ذکر ہے۔ اور اس صفحہ پر یہ نہیں لکھا کہ احمدی بڑی تعداد میں اسرائیل کی فوج میں داخل ہو رہے ہیں۔ اور نہ ہی اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ پاکستانی فوج سے زیادہ قادیانی اسرائیل کی فوج میں کام کر رہے ہیں۔ اور اگر ویڈیو دیکھنے والے غور کریں تو اس ویڈیو پر بھی یہ عبارت پڑھ سکتے ہیں۔یہاں یہ ذکر چل رہا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لوگ اسرائیل کی فوج میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اور احمدیوں کا ذکر کر کے لکھا ہے:
….can also serve in the army. The Druze, the Circassians, and the Ahmadians, like all citizens in the country can vote in national elections to Parliament.
یعنی یہ فوج میں کام کر سکتے ہیں۔ اور دروز، سرکیشین اور احمدی دوسرے تمام شہریوں کی طرح پارلیمنٹ کے لئےقومی انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
یہاں یہ ذکر نہیں کیا جا رہا کہ احمدی بڑی تعداد میں اسرائیلی فوج میں داخل ہو رہے ہیں بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ ان کے فوج پر شامل ہونے پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ اور انہیں باقی تمام شہریوں کی طرح ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ جیسا کہ ہم بعد میں ثبوت درج کریں گے کہ کسی بھی فرقہ کے لوگوں پر یہ پابندی نہیں لگائی گئی اور مسلمانوں کے بعض دوسرے فرقوں کے شہری بڑی تعداد میں اسرائیل کی فوج میں کام کر رہے ہیں۔
کم از کم مجھے یقین ہے کہ عمران خان صاحب کی انگریزی اتنی کمزور نہیں ہو سکتی کہ انہیں یہ ہی نہیں پتہ چل سکا کہ
can also serve in the army…
کا ترجمہ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ لوگ بڑی تعداد میں فوج میں داخل ہو رہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فلسطین میں اور خاص طور پر کبابیر میں احمدی اُس وقت سے موجود ہیں جب ابھی اسرائیل کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اور جیسا کہ ہم ثبوت پیش کریں گے کہ اس وقت اسرائیل میں دوسرےفرقوں کے مسلمان آباد ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد سنی فرقہ سے وابستہ احباب کی ہے۔ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرنے کی کوشش کرے کہ ہم کیسے مان لیں کہ فلسطین میں اس وقت موجود احمدی پاکستان سے تعلق نہیں رکھتے۔ کیونکہ ملک کے ایک معروف اینکر نے اس اعتماد سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی احمدی اسرائیل میں موجود ہیں۔بلکہ فوج میں بھی بھرتی ہو گئے ہیں۔
اس بارے میں عرض ہے کہ جس کتاب کے حوالے کی بنیاد پر عمران خان صاحب نے یہ دعویٰ پیش کیا ہے، اس کی اشاعت کے بعد یہ شور پاکستان میں بھی پڑا تھا کہ ہو نہ ہو پاکستانی احمدی اسرائیل میں آباد ہو گئے ہیں۔ اور اُ س وقت کی حکومت نے اس قسم کی خبر یں پڑھ کر تحقیقات بھی شروع کر دی تھیں کہ یہ کیا معاملہ ہے۔؟لیکن انجام وہی ہوا کہ ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔‘‘ آخر پاکستان کی حکومت کو کیا اعلان کرنا پڑا؟نیچے روزنامہ امروز کی یکم مئی 1976 کی اشاعت میں شائع ہونے والی خبر ملاحظہ ہو
اسلام آباد ۳۰ اپریل [ریڈیو رپورٹ] مذہبی امور اور سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں کے امور کے وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی نے کہا ہے اسرائیل میں جو مرزائی موجود ہیں وہ پاکستانی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا بعض اخباروں میں خبریں شائع ہوئی ہیں کہ بعض مرزائی خاندان اسرائیل میں آباد ہو گئے ہیں اور انہیں اسرائیلی فوج میں شامل ہونے کی اجازت مل گئی ہے۔ مولانا کوثر نیازی نے کہا کہ حکومت نے اس سلسلہ میں عرب ملکوں سے تحقیقات کی ہے اور معلوم ہوا ہے کہ اگر مرزائی اسرائیل میں آباد ہیں لیکن وہ پاکستانی نہیں ہیں۔
عمران خان صاحب نے جو اعتراضات اُٹھائے ہیں، ان کی وجہ سے مجبوراََ یہ اعداد و شمار پیش کرنے پڑ رہے ہیں کہ کون سے فرقوں کے افراد اسرائیل کی فوج میں کام کر رہے ہیں۔سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس وقت اسرائیل کی 17 فیصد سے کچھ زائد آبادی مسلمان ہے۔اور خود اسرائیل کی وزارتِ خارجہ کی سائٹ کے مطابق اسرائیل میں آباد مسلمانوں کی بھاری اکثریت سنی فرقہ سے تعلق رکھتی ہے۔
[ https://mfa.gov.il/mfa/aboutisrael/people/pages/society-%20minority%20communities.aspx ] (accessed on 23.08.2019)
اسرائیل میں آباد مسلمانوں کا ایک حصہ بدو قبائل پر مشتمل ہے۔ اور مسلک کے اعتبار سے یہ سنی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے یہ لوگ اسرائیل کی فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال پانچ سو کے قریب بدو شہریوں کو اسرائیل کی فوج میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ اور اب اس بات کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ ان کی زیادہ تعداد کو فوج میں شامل کیا جائے۔اگر چہ اسرائیل کے قانون کے تحت عرب شہریوں پر فوجی خدمات لازمی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ہزاروں بدو سنی مسلمان اسرائیل کی فوج میں کام کر چکے ہیں۔ اور انہیں خاص پر اس یونٹ کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کا کام راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی فوج میں ایک خاص یونٹ 585 قائم کیا گیا ہے جو کہ ان بدو سنی مسلمانوں اور عرب عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت بھی ڈیڑھ ہزار بدو مسلمان اسرائیل کی فوج میں کام کر رہے ہیں۔ اور ان میں سے سو سے اوپر مختلف مشنوں میں مارے بھی گئے ہیں۔ان فوجیوں میں ایک صاحب میجر فہد فلاح بھی ہیں۔ ان کا تعلق گولان کے ایک گائوں سعد سے ہے۔ انہوں نے بیان دیا کہ جو مسلمان اسرائیل کی فوج میں خدمات سرانجام نہیں دیتے انہیں شرم آنی چاہیے۔ اور یہ بیان ہندوستان کے اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہوا۔ اسرائیل کی حکومت نے ان بدوئوں کی فوجی خدمات کے اعتراف کے طور پر گلیلی میں ایک یادگار بھی تعمیر کی ہے۔
(Army drive aims to boost number of Bedouin soldiers, Times of Israel , 15 Oct 2019
Comment: Bedouin who serve in Israel’s army by Rachid Sekkai. The Hindu 21 October 2009
Arab Christians and Bedouins in the IDF: Meet the members of Unit 585 by By ANNA AHRONHEIM . Jerusalem Post JANUARY 12, 2020)
اسی طرح اسرائیل میں آباد سنیوں کا ایک گروہ سرکیشین(Circassion) قوم کا بھی ہے۔ یہ سنی مسلمانوں کا ایک گروہ ہے جو کہ طویل عرصہ پہلے روس کے علاقے سے نقل مکانی کر کے فلسطین میں آباد ہوا تھا۔اس قوم کے لوگوں نے خود اصرار کیا تھا کہ ان کی قوم کے لئے ایک ڈیڑھ سال کی ملٹری سروس لازمی کی جائے۔ چنانچہ یہ لوگ بھی کافی تعداد میں اسرائیل کی فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔
(Geller, Randall. (2012). The Recruitment and Conscription of the Circassian Community into the Israel Defence Forces, 1948–58. Middle Eastern Studies – MIDDLE EAST STUD. 48. 387-399. 10.1080/00263206.2012.661722.)
پھر اسرائیل کی فوج میں ایک یونٹ گادسار (Gadsar)کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ اس میں مسلمان اور عیسائی عرب فوجی شامل کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی دہائیوں سے بہت سے مسلمان اسرائیلی فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان حقائق کی موجودگی میں عمران خان صاحب کی یہ کوشش کہ ان الزامات کی ایک گٹھری بنا کر احمدیوں کے سر پر رکھ دی جائے کسی ذہنی دبائو کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے ورنہ حقائق تو مختلف کہانی بیان کر رہے ہیں۔ اور ذہنی دبائو کی وجہ میں بیان کر چکا ہوں۔
(Israel›s Arab soldiers who fight for the Jewish state By Jane Corbin BBC News, Jerusalem 8 November 2016)
اس مرحلے پر پاکستان میں مسالک کے حوالے سے اس طرح کی بحث چھیڑنا پاکستان دشمنی کے مترادف تھا۔ لیکن جماعت احمدیہ کے مخالفین نے یہ بحث شروع کی اور اب ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ اگر ان الزامات کا جواب نہ دیا جائے تو صرف یہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کو مہم کو تقویت ملی گے بلکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا۔ پہلے اس قسم کی حرکتوں کی وجہ سے ہمارا وطن دو لخت ہو گیااور اب یہ لوگ ہاتھ دھو کر باقی ملک کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔پورے ملک کا امن برباد کر دیا گیا اور ہزاروں پاکستانی انتہا پسندی کے ہاتھوں شہید ہو گئے لیکن ان کے نزدیک ابھی بھی یہ سب کچھ کافی نہیں ہے۔
ہر عقیدے اور مسلک میں شریف لوگ ہوتے ہیں جو کسی کے خلاف غلط بیانی یا نفرت انگیزی کو پسند نہیں کرتے۔ یہ شرفاء خواہ وہ جماعت احمدیہ سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں ہمارے مخاطب نہیں ہیں۔ ان پر کوئی الزام نہیں۔ مجبوری کی حالت میں صرف ان لوگوں کو مخاطب کیا جا رہا ہے جنہوں نے کئی دہائیوں سے شرانگیزی کی انتہا کر دی ہے۔عمران خان صاحب نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جیسے خدانخواستہ جماعت احمدیہ اور اسرائیل مل کر مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ لیکن جناب بقول شاعر؎
ہماری درخواست ہے کہ کبھی انٹر نیٹ پر اسرائیل کے اخبارات تو ملاحظہ فرمائیں۔ اسرائیل کے تبصرہ نگار کیا لکھ رہے ہیں۔ اور کس بات کی خوشی منائی جا رہی ہے۔بیسیوں مثالوں میں سے ایک پیش خدمت ہے۔ عمران خان صاحب یہ تو جانتے ہوں گے یروشلم پوسٹ اسرائیل کا سب سے پڑھا جانے والا انگریزی اخبار ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ اس کی 21؍ نومبر 2017 کی اشاعت میں یوسی ملمین ( YOSSI MELMAN)کا مضمون ملاحظہ فرمائیں۔یہ صاحب اسرائیل کے نامور صحافی ہیں اور جاسوسی اور جنگی حکمت عملی پر سند سمجھے جاتے ہیں۔ اور اس موضوع پرآٹھ کتابوں کے مصنف ہیں۔اور انہیں اسرائیل میں صحافت کا اعلیٰ ترین ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔ ان کے اس مضمون کا عنوان ملاحظہ فرمائیں:
یعنی ’’اسرائیل اور سنیوں کا اتحاد‘‘۔ میں صرف اس مضمون کا پہلا پیراگراف درج کرنے پر اکتفا کروں گا۔ وہ لکھتے ہیں:
AN INTERESTING notion has been introduced to Israel’s public discourse over recent years. It states that Israel has managed to develop unprecedented relations with the Arab Sunni states. And when Israelis talk about “the Sunni world,” they are mostly referring to Saudi Arabia. The main broadcaster of this message is Prime Minister Benjamin Netanyahu, who wishes to create the impression that Israels international status has never been better.
ترجمہ: گذشتہ چند سالوں سے اسرائیل کی پبلک میں ہونے والی گفتگو میں ایک دلچسپ نظریہ متعارف کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل نے سنی عرب ممالک سے ایسے تعلقات پیدا کر لیے ہیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اور جب اسرائیلی ’’سنی دنیا‘‘ کی بات کرتے ہیں تو اکثر ان کی مراد سعودی عرب ہوتی ہے۔اس پیغام کو بیان کرنے میں سب سے زیادہ نمایاں وزیر اعظم نیتن یاہو ہیں۔جو یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ اسرائیل کی بین الاقوامی حیثیث اب اتنی بہتر ہو چکی ہےجتنی ماضی میں کبھی نہیں رہی۔
صرف یہ ایک حوالہ ہی عمران خان صاحب کی ساری تقریر کے ردّ کے لئے کافی ہے۔ یہ مضمون 2017ء میں شائع ہوا تھا۔ گذشتہ چند ہفتوں میں دنیا کے سفارتی افق پر جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نیتن یاہو صاحب کے دعوے غلط نہیں تھے۔اس طرح کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن صرف اس لئے نہیں پیش کی جا رہی ہیں مقصد صرف ایک الزام کو غلط ثابت کرنا ہے کسی کو شرمندہ کرنا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ سے جو گروہ جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرم عمل رہے ہیں، ان کا واحدمقصد صرف جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔ یہ گروہ مسلمان ممالک کے اندر اختلافات اور تفرقہ کو ہوا دینے کے لئے کوشاں تھے اور ان کی کوشش تھی کہ مختلف مسلمان ممالک آپس میں لڑتے رہیں۔ یہ گروہ مخالفین کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اور اس کے نتائج اب روز روشن کی طرح واضح ہو چکے ہیں۔ دنیا کے حکومتوں کا بہت سا ریکارڈ جو پہلے خفیہ تھا اب منظر عام پر آ چکا ہے اور اس کا سرسری مطالعہ اس نظریہ کو ثابت کر دیتا ہے۔
میری عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ وہ صحافتی اقدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود ہی ان غلط الزامات کی تردید فرما دیں جو کہ اس ویڈیو میں لگائے گئے ہیں۔ اگر الزام تراشی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو گزشتہ سو سال کی تاریخ کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آ سکتے ہیں جن کو پڑھنا شاید عمران خان صاحب پسند نہ فرمائیں