امریکن نیشنل وجیہہ سواتی قتل کیس،رضوان حبیب“احمدی ڈاکٹر مھدی علی” کا بھی قاتل۔

ربوہ ٹائمز(ویب ڈیسک) امریکی نژاد پاکستانی خاتون وجیہہ فاروق سواتی، آٹھ اکتوبر دو ہزار اکیس کو پاکستان آئیں۔
صرف آٹھ دن بعد، سولہ اکتوبر کو، ان کے دوسرے شوہر رضوان حبیب نے سفاکی سے ان کا قتل کر دیا۔
قتل کے بعد لاش کو لکی مروت لے جایا گیا، جہاں ایک کمرے کی زمین کھود کر چھ فٹ گہرائی میں دفنا دی گئی۔ لاش دو ماہ بعد دسمبر میں برآمد ہوئی۔

اس کیس نے پولیس کی روایتی سستی اور نااہلی کو بے نقاب کیا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس حدود کے جھگڑے میں الجھی رہیں۔ گمشدگی کی رپورٹ بروقت درج نہ ہوئی۔ آلہ قتل اور خون آلود بیڈ شیٹ آج تک برآمد نہ ہو سکیں۔ حتیٰ کہ کرائم سین کا باقاعدہ نقشہ بھی تیار نہیں کیا گیا۔

رضوان حبیب نے گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ یہ سب کچھ دولت اور جائیداد کے لالچ میں کیا۔
یہ بھی سامنے آیا کہ اس نے کئی سال پہلے مقتولہ کے پہلے شوہر ڈاکٹر مہدی کے قتل میں بھی کردار ادا کیا تھا، تاکہ وجیہہ تک رسائی پا کر ان کے اثاثوں پر قبضہ کر سکے۔

ٹرائل کورٹ نے نومبر دو ہزار بائیس میں مرکزی ملزم کو سزائے موت سنائی۔ شریک ملزمان کو قید اور جرمانے دیے گئے۔
اکتوبر دو ہزار چوبیس میں ہائی کورٹ نے مقدمہ دوبارہ سننے کا حکم دیا۔
اور دس اپریل دو ہزار پچیس کو عدالت نے ایک بار پھر رضوان حبیب کی سزائے موت برقرار رکھی۔

امریکی شہریت کی وجہ سے یہ کیس بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ کا مرکز رہا۔ امریکی سفارتخانہ اور ایف بی آئی اس میں شامل رہے۔
لاش امریکہ منتقل ہوئی، دوبارہ پوسٹ مارٹم ہوا، اور وہاں مذہبی طریقے سے تدفین کی گئی۔

وجیہہ فاروق کا قتل صرف ایک فرد کا نقصان نہیں… بلکہ ہمارے نظام انصاف اور پولیس کلچر پر ایک کڑا سوال ہے۔