میانمار: روہنگيا کے قتل عام کے شواہد اکٹھا کرنے والے صحافیوں کو سات سال قید کی سزا سنادی گئی

میانمار ( ربوہ ٹائمزآن لائن )میانمار کی ایک عدالت نے خبررساں ادارے روئٹرز کے دو صحافیوں کو ملکی رازوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی ہے۔

ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ:

انھوں نے روہنگیا کے خلاف تشدد کی جانچ کے دوران ملکی راز کی خلاف ورزی کی ہے۔

صحافی وا لون اور کیاو او کو سرکاری دستاویزات کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو انھیں کچھ دیر قبل پولیس افسروں نے دی تھیں۔

دونوں صحافیوں کا کہنا ہے کہ:

وہ بے گناہ ہیں اور پولیس نے انھیں جال میں پھنسایا ہے۔

سزا سنائے جانے کے بعد ان میں سے ایک صحافی وا لون نے کہاکہ:

‘مجھے کوئي خوف نہیں ہے۔۔۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ میں انصاف، جمہوریت اور آزادی میں یقین رکھتا ہوں۔’

یہ دونوں صحافی گذشتہ سال دسمبر میں گرفتاری کے بعد سے قید میں ہیں۔ یہ دونوں شادی شدہ ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

روئٹرز کے مدیر اعلی سٹیفن ایڈلر نے کہاکہ:

‘آج کا دن میانمار، روئٹرز کے صحافیوں وا لون اور کیاو سیو او اور دنیا بھر میں پریس کی آزادی کے لیے غمناک دن ہے۔

دارالحکومت یانگون میں جج یی لوئن نے عدالت کو بتایا کہ:

ان دونوں کے خلاف ایسے شواہد ملے ہیں کہ ‘وہ ملک کے مفاد کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔اور اس لیے یہ ملک کے رازداری کے قانون کے تحت مجرم پائے گئے ہیں۔’

32 سالہ وا لون اور 28 سالہ کیاو سیو او شمالی رخائن کے گاؤں اندن میں فوج کے ہاتھوں دس افراد کے قتل کے متعلق شواہد اکٹھا کر رہے تھے۔

جانچ کے دوران انھیں دو پولیس افسروں نے دستاویزات پیش کیں لیکن پھر ان دستاویزات کے ان کی تحویل میں ہونے کے جرم میں انھیں فورا گرفتار کر لیا گيا۔

اس کے بعد حکام نے اس گاؤں میں ہونے والے قتل کے معاملے میں اپنی جانچ کرائی اور تسلیم کیا کہ وہاں قتل عام ہوا تھا اور پھر یہ وعدہ کیا کہ اس کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کی جائے گي۔

روئٹرز کے مطابق:

میانمار میں برطانیہ کے سفیر ڈین چگ نے کہا: ‘ہم اس فیصلے سے بہت مایوس ہوئے ہیں۔’

امریکی سفیر سکوٹ میرسیل نے بھی یہی تنقید کی اور کہا کہ:

عدالت کا فیصلہ ان سبھی کے لیے ‘بہت زیادہ پریشان کن ہے جنھوں نے میڈیا کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے۔’

میانمار میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ اور انسانی اقدار کے کوارڈینیٹر نٹ اوسٹبی نے کہا کہ:

‘صحافیوں کو ان کے اہل خانہ کے پاس واپس آنے دینا چاہ

‘یے اور انھیں اپنا کام جاری رکھنے دیا جانا چاہیے تھا۔ ہم ان کی رہائي کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔’

اس سے قبل فیصلے میں جج کی علالت کے سبب تاخیر ہوئی تھی۔ یہ فیصلہ رخائن صوبے میں پیدا ہونے والے بحران کے ایک سال بعد آيا ہے جو کہ ایک روہنگیا جنگجو گروپ کی جانب سے کئی پولیس چوکیوں کو نشانہ بنانےکے بعد شروع ہوا تھا۔

اس کے بعد فوج نے روہنگیا اقلیت کے خلاف بہیمانہ کارروائی کی۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں میانمار کے اعلی فوجی افسروں کی جانچ ہونی چاہیے اور ان پر نسل کشی کا مقدمہ چلنا چاہیے۔

رخائن میں میڈیا پر حکومت کا شدید کنٹرول ہے اس لیے وہاں سے قابل اعتماد خبر کا حاصل کرنا انتہائي مشکل ہے۔