لاہور (ربوہ ٹائمز نیوز ڈیسک) قصور میں زینب سمیت سات بچیوں سے زیادتی اور قتل کے مجرم کو آج 17 اکتوبر کی صبح ساڑھے پانچ بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔لاہورکی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی کے وقت زینب اور دیگر بچیوں کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔ پھانسی کے بعد مجرم عمران کی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی۔
مجرم عمران کی پھانسی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کے والد امین انصاری کا کہنا تھا کہ:
وہ اپنی آنکھوں سے مجرم کا انجام دیکھ کر آرہے ہیں، آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے، مجرم کو سزا پر مطمئن ہوں.
انہوں نے کہا کہ:
مجرم عمران بے خوف و خطر خود چل کر تختہ دار تک آیا، اُس کے چہرے پر زرا برابر بھی ندامت کے آثار نہیں تھے.
اس سے قبل قصور میں متعدد کم سن بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے لیکن مجرم قانون کی گرفت سے باہر تھا،4 جنوری 2018 کو 7سالہ زینب کی لاش ملنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور 19 دن بعد زینب کے گھر کی عقبی گلی کا رہائشی عمران پکڑا گیا۔
عمران نے ابتدائی تفتیش میں ہی اعتراف جرم کر لیا، تاہم جب ڈی این اے کرایا گیا تو وہ 8 بچیوں کا قاتل نکلا۔ زینب قتل کیس کو ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قراردیا جارہا ہے۔ مجرم کو اکیس جنوری کو گرفتار کیا گیا اور سترہ فروری کو پھانسی کی سزاسنائی گئی تھی۔
مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی، عمرقید اور 10لاکھ روپے جرمانہ، لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ مجرم عمران کے خلاف کیسز کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے روزانہ کی بنیاد پر کوٹ لکھپت جیل میں کی۔
زینب قتل کیس میں 56 گواہان نے بیانات ریکارڈ کرائے، جب کہ ڈی این اے اورپولی گرافک ٹیسٹ اور چار ویڈیوز کو بھی بطور ثبوت پیش کیا گیا۔
دوران تفتیش مجرم نے دل دہلا دینے والے انکشافات کیے۔ 24 سالہ عمران کے مطابق قصور کے ایک قحبہ خانے میں جانے اور غیراخلاقی فلمیں دیکھنے سے وحشت سوار ہو جاتی تھی، جس کے لئے وہ کم سن اور معصوم بچیوں کو ورغلا کر لے جاتا، پہلے زیادتی کا نشانہ بناتا اور پھر گلا دبا کر مار دیتا۔